عالمی عدالت کلبھوشن یادیو کیس کو سننے میں اتنی بے چین دکھائی دے رہی تھی جیسے کہ صدیوں سے اسے کسی کیس کی سماعت کرنے کا موقع نہ ملا ہو ۔اتنی جلدی تو شیطان ہی کرتا ہے ظاہر سی بات ہے جب شیطان کا نام لیا جائے تو بھارت کا نام یاد آنے لگتا ہے ۔ اس کا سایہ جب آئی سی جے پر پڑھا تو شیطانیت کا رنگ اس پر بھی غالب آنے لگا۔ویسے مزے کی بات ہے شیطان کی پیروی اور جی حضوری کرنے والوں کی پاکستان میں بھی بہت بہتات ہے ۔اور انہی کی مہربانی سے یہ کیس عالمی عدالت تک جا پہنچا ہے ۔سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ ہمیں کیس کی تیاری میں صرف 5 دن ملے بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ آپ کی زبان کسی نے روکی ہوئی تھی کہ آپ عالمی عدالت سے یہ (التجا) ہی کرلیتے کہ ہمیں تھوڑا وقت دیا جائے ہم کیس کے لئے تیار نہیں عدالت اس درخواست کو مانتی یا نہ مانتی آپ اپنی طرف سے تو یہ کوشش کرسکتے تھے لیکن آپ نے ایسا کرنا مناسب ہی نہیں سمجھا ۔ اول تو آپ کو عالمی عدالت میں جانا ہی نہیں چاہئے تھا۔لیکن کیا کیا جائے ساجن جی گھر آئے اور نواز شریف جب شرمائے تو اسی شرم و شرمی میں اتنا سا منہ لئے میاں صاحب ساجن جی کی بات کو رد نہ کر پائے کیونکہ یہ ان کے (اندرونی کاروبار) کا جو معاملہ تھا۔فوری معاملات طے پا گئے ۔وزیر اعظم نواز شریف اپنے کارنامے کا بارہا تذکرہ کرتے ہیں کہ امریکی صدر بل کلنٹن نے ان پر بہت دباؤ ڈالا کہ وہ ایٹمی دھماکے نہ کریں لیکن انہوں نے کسی کا دباؤ قبول نہیں کیا۔ایسے میں پھر ان کو اس بار بھی نہیں ڈرنا چاہئے پہلے تو معاملہ زیادہ بڑا تھا ایسی حالت میں نہیں گبھرائے تو پھر عالمی عدالت سے خوف کیسا؟ پہلے بھی پابندیاں لگی تھی تو کیا ہوا تھا ؟ اب بھی لگ جائیں گی تو کیا ہوگا ؟لیکن اس پر دباؤ لینا یہ ثابت کرتاہے کہ پہلے بھی وہ دباؤ میں آگئے تھے اور اسٹبلشمنٹ کے دباؤ میں ایٹمی دھماکے کرنے پر مجبور ہوگئے ۔یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اگر عالمی عدالت کی بات نہیں مانی جاتی تو ایسے میں پاکستان عالمی دنیا میں تنہا ہوجائے گا۔ میاں صاحب کہتے ہیں سی پیک کے منصوبے کی وجہ سے پوری دنیا کی توجہ پاکستان کی جانب مرکوز ہے تو ایسے میں ایک ملک یا ایک (دہشت گرد جاسوس)کی وجہ سے کوئی ملک پاکستان سے تعلقات کیوں کر خراب کرے گا ۔اگر اشارہ امریکہ کی طرف ہے تو اُس نے ایٹمی دھماکے کرتے وقت بھی پاکستان پر پابندیاں لگائیں اب بھی لگا دے گا تو کیا ہوگا ؟کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ کلبھوشن کے معاملے پر کچھ دو کچھ لو کی پالیسی پر عمل کیا جاسکتا ہے ۔یعنی ہمارے جاسوس بھارت ہمارے حوالے کردے اور ہم اس کا دہشت گرد جاسوس اس کے حوالے کردیں ۔لیکن یہاں اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے کہ ایک سپاہی جاسوس ہوتا ہے جو صرف جاسوسی کرتا ہے اور ایک وہ جو باقاعدہ غیر ملکی دہشت گردی کارروائیوں میں ملوث ہوتا ہے جیسا کہ کلبھوشن یادیو ہے ۔اُڑی حملے میں پاکستان پر الزام لگتا رہا لیکن کچھ ثابت نہ ہوسکا ۔اگر کوئی پاکستانی جاسوس پکڑا جاتا تو بھارتی میڈیا واویلا مچاتا ۔جیسا کہ اجمل قصاب کے بارے میں بھارت کی جانب سے کہا گیا کہ وہ پاکستانی تھا اور اُس کو پھانسی بھی دے دی گئی ایسے میں پھر بھارت کیوں رونا روتا ہے اب برداشت بھی کرنے کی عادت ڈالو ۔کبھی اُڑی حملے کبھی ممبئی حملے میں پاکستان کو ملوث قرار دیتا ہے جھوٹ بولتا ہے ۔سیکولر ذہنیت کے نام پر پست ذہنیت رکھتا ہے ۔ کلبھوشن نے خود اعتراف جرم کیا ہے اُس نے خود کہا ہے کہ وہ پاکستان میں تخریبی سرگرمیاں کرتا رہا ۔وہ پاکستان کو علیحدہ کرنےو الے عناصر سے بلوچستان میں ملتا رہا۔حکومت کہتی ہے کہ پاکستان کا کیس مضبوط ہے ۔بالکل درست کہتی ہے مضبوط ہے تب ہی تو اس کو کمزور کیا جا رہا ہے ۔کچھ بھارت نواز پاکستانیوں کو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ اس کیس کو کیسے کمزور کیا جاسکے اور ساجن جی اور مودی سرکار کو خوش کیا جاسکے اور اپنے کاروبار کو کیسے چمکایا جاسکے ۔ پاکستان عالمی عدالت میں 90 منٹ تک اپنے کیس کو لے کر چل سکتا تھا جبکہ پاکستانی وکیل خاور قریشی کی زبان مبارک 50 منٹ کے بعد ہی جواب دے گئی ۔ ستمبر 1999ء میں بھارت نے پاکستان نیوی کے غیر مسلح طیارے کو نشانہ بنایا۔ پاکستان نے اس واقعے پر انصاف کے لیے بھارت کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع کیا۔ عالمی عدالت نے اس تنازعے کو اپنے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا۔ عالمی انصاف کی عدالت سے انصاف کی اُمید وہی رکھ سکتے ہیں جو اس کے (ہم خیال) ہوں۔ٹھیک ہے اس بات کو مان لیا جائے کہ بھارت نے عالمی عدالت میں جا کر بہت بڑی غلطی کی اور پاکستان کے لئے راہ ہموار کی ۔بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجو کا بھی کچھ ایسا ہی ماننا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ کلبھوشن یادیو کا معاملہ عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں لے جانے کو سنگین غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نے پاکستان کو مسئلہ کشمیر عالمی عدالت میں لے جانے کا موقع دے دیا ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ بات ایک بھارتی کہہ رہا ہے جبکہ یہ بات پاکستانی حکام کو کہنی چاہئے تھی کہ ہم مسئلہ کشمیر پر بات کریں گے ہم بھارت کےسند طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر عالمی عدالت میں بات کریں گے ۔ہم بھارت کی پاکستان کے خلاف سازشوں کے خلاف عالمی عدالت میں جائیں گے ۔لیکن ایسا کیوں کرہوسکتا ہے ۔عافیہ صدیقی کا معاملہ ہو تو پاکستان عالمی دباؤ ڈالنے سے قاصر رہا کیا ہی اچھا ہو کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے پاکستان عالمی عدالت میں بات کرے ۔لیکن کون کرے گا ایسا اُن لوگوں سے یہ امید رکھی جائے کہ جو ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ کے دباؤ کے نتیجے میں چھوڑ دیتے ہیں جو سرعام پاکستانیوں کا خون بہاتا ہے ۔جو کلبھوشن کو بری کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں ۔وہ کشمیر عافیہ صدیقی اور سندھ طاس کی خلاف ورزی پر کیسے بول سکتے ہیں ۔کلبھوشن یادیو کو اگر چھوڑ دیا جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ سول ملٹری تعلقات ایک بار پھر کشیدگی اختیار کرجائیں ۔اس کیس کو دیکھیں تو یہ مِس ہینڈلنگ سے زیادہ ڈیلنگ لگ رہا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn