Qalamkar Website Header Image

آگہی کا سفر

انسانی معاشرے کو ہمیشہ سے جو اہم مسائل رہے ہیں ان میں رزق کا حصول اور جنسی تسکین اہم ترین ہیں۔ حصول رزق کے لیے انسان پیدا ہوتے ہی جدوجہد شروع کردینا ہے بھوک میں شیر خوار بچے کارونا، اور ماں کی چھاتی سے مانوس ہونا ایسے فطری عمل ہیں جو زندگی کی ابتداء سے ہی ساتھ ساتھ ہیں۔

گوشت پوست کے انسان کو اپنی زندگی کے لیے غذا کی جو ضرورت ہوتی ہے وہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے مگر برا ہو اس تعلیم یافتہ سماج کاجہاں حصولِ رزق کو یا پیشے کو تعلیم سے جوڑ کر اب انسان سازی کے بجائے روبوٹ بنائے جارہے ہیں روبوٹ اپنے کام میں ماہر ہوتے ہیں۔ بٹن دباتے ہی حاضر ہو جاتے ہیں اور ستائش کی تمنا اور صلہ کی پروا کے بغیر اپنا کام انجام دیتے رہتے ہیں ہائے ہائے۔ ممکن ہے وہ مسیحائی کا فریضہ انجام دے رہے ہوں تو وہ دوا علاج مساج ساری خدمات کو اپنے فرضِ غیر منصبی کے طور پر مہارت سے کر رہے ہوں مگر برا ہوا انسان کی فطرت کا جو ایک مسیحا کے لمس کی منتظر رہتی ہے اگر کوئی ہمدردی سے نبض پر ہاتھ رکھ دے تو کرشمہ لمس دیکھنے والا ہوتا ہے پھر مسیحا کی آنکھ کا خلوص زبان سے نکلے چند مرہم نما الفاظ ایک کیمیائی ردعمل کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔

ہمارے طالب علمی کے زمانے میں یونیورسٹی کی سطح پر بھی ادب بیزاری موجود نہ تھی۔ مگر اس ترقی یافتہ دور میں تو اسکول کے چھوٹے چھوٹے طلبہ یہ فیصلہ کر دیتے ہیں کہ فلاں فلاں سبجیکٹ بےکار ہے۔ ظاہر ہے بچے کے اردگرد کے ماحول میں تعلیم کسی پیشہ ورانہ قابلیت کا نام ہو چکا ہے اسی لیے جمالیات اب معاشرے سے غائب ہے۔ استاد کے رویہ کو کون روئے کہ اب تو والدین بھی بچے کو ایک پیسہ کمانے والا پُوت بنا کر اپنے خوابوں کی تکمیل کا سوچتے ہیں ان کے خواب جب ٹوٹتے ہیں کہ وہی اولاد احساسِ لطافت سے عاری ہو کر سماج میں رشتوں سے بے نیاز بس ایک مشین کا پرزہ بن جاتی ہے۔ "ہائے روٹی وائے روٹی”۔ انسان کی زندگی کا سنہرا دور عہدِ شباب ہوتا ہے۔ جس میں ہر شے پر شباب ہوتا ہے جسمانی تغیرات ایک طوفان اٹھائے ہوتے ہیں اور نجانے کتنی مرتبہ اس طوفان کی لہریں ڈبو دیتی ہیں پھر ایسے وقت میں ایسی آگہی کی ضرورت ہوتی ہے کہ کس طرح اس ہیجان سے نپٹا جائے۔

یہ بھی پڑھئے:  عوامی بسوں میں سفر خواتین کا دوہراامتحان

مذہب اور جھوٹی سماجی اقدار کے نام پر نوجوانوں کے منہ پر تالے لگا دیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں جنسی معاملات پورے سماج کو مشکوک بنا دیتے ہیں۔ میں اکثر اپنے طلبہ یا دیگر نوجوانوں سے یہ کہتی رہی ہوں کہ جنسی تعلق تو ایک حسین اور مقدس تعلق ہے اس کا شریک تو بس وہی ہونا چاہیے جو تمہارا شریکِ حیات ہو اس تعلق کو سرِ بازار انجام دینے سے اس کا حسن مجروح ہو جاتا ہے۔معاشرے میں جنسی مریض کثرت سے سامنے آرہے ہیں۔ جب ہم اس کے اسباب پر نظر ڈالیں تو سب سے بڑا احساس احساِس محرومی ہوتا ہے

لاشعوری طور پر جب زندگی میں ناکامیاں اور محرومیاں مقدر بن جائیں تو انسان جنسی تسکین حاصل کر کے وقتی طور پر فرار حاصل کرتا ہے criminal mind and mentally sick لوگوں میں فرق کرنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ جب تک اس باریک فرق کو سمجھا نہیں جائے گا سدھار کے آثار پیدا نہیں ہوں گے۔ آج کل قصور واقعہ نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے یہ سب کچھ ہمیشہ سے ہوتا چلا آ رہا ہے مگر جس تیز رفتاری سے اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ بہت ہی تشویش کی بات ہے۔pedophilia یا جسے اردو میں بچہ بازی کہا جاتا ہے۔ اس کا بڑھتا ہوا رجحان بہت خطرناک بات ہے ایک طرف تو بچوں کو ایسے حالات سے محفوظ رکھنے کے لیے انہیں بھرپور طرح سے آگاہی دینی ہوگی تاکہ وہ اپنی حفاظت سیکھ سکیں۔ ان کی بلوغت کے دور میں ان کے دوست بن کر رہیں۔ ان کو کسی ایسے دلچسپ شوق یا مشاغل میں مصروف رکھیں کہ وہ صرف جنسی معاملات کے اسیر نہ ہوجائیں۔

یہ بھی پڑھئے:  کیا وقت بدل گیا ہے؟

اس حوالے سے روحانی اور دینی تربیت بھی بہت معاون ثابت ہو سکتی ہے مگر خدارا دین کو اوپر سے مت اڑھائیے کہ وہ ڈاڑھی رکھ کر مسواک ہاتھ میں لے کر اپنے کو دین دار سمجھنے لگیں۔ دین تو انسان سازی کا کارخانہ ہے اس کارخانے سے نام نہاد مسلمان مت نکالیں۔ زندگی کے دوہرے معیار کو ترک کریں۔ معاشرے کا جو فرد کسی disorder میں مبتلا ہے اس کا تماشا بنا کر خوش مت ہوں اسے سرِ عام پھانسی دینے کا تقاضا بھی شدت سے مت کریں بلکہ کوشش کریں کہ جو دوسرا کوئی شخص اس وباء میں مبتلا ہےاسے کیسے چھٹکارا دلایا جائے۔ ایسے لوگوں سے ہمدردی کریں تاکہ وہ اس لعنت سے نجات حاصل کر سکیں۔ لفظی مذمت بہت آسان ہے مگر اس مذمت سے مسئلے حل نہیں ہوتے۔ بیمار سوچ کا علاج کریں اور اپنی روشن خیالی سے سماج کے اندھیرے کو دور کریں۔ ہمارے بچے نہ تو مستقبل کی ایک پیسے کی مشین ہیں اور نہ ذہنی پسماندہ کوئی جنسی مریض اسے ایک جیتا جاگتا روشن خیال انسان بنائیں جو اپنے ساتھ ساتھ معاشرے کی اخلاقی قدروں کے لیے بھی منافع بخش ہو۔

حالیہ بلاگ پوسٹس