لکھنے والے کو ایک وقفہ لینا ضروری ہوتا ہے کیونکہ کبھی کبھی موضوعات، کیفیات کی یکسانی کے سبب ایسا لگتا ہے جیسے ایک ہی بات کو بار بار دُہرایا جا رہا ہو۔ مگر کیا کیا جائے اس جابر وقت کا جو سانحات اور حادثات کے اعادے کے سبب بس ہم کو چبائے ہوئے نوالے چبانے کو کہتا رہتا ہے۔
قصور کا واقعہ ہو یا ماورائے عدالت قتل کا معاملہ یا پھر شریعت کے نام پر بو لہبی کا فروغ ہو بس ہم مجمع میں احتجاج کرتے ہیں ،تنہائی میں پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں ،قلم اور زبان سے مذمتی الفاظ ادا کرتے ہیں ،ملزم پر لعنت کرتے ہیں اور پھر بے نیازی کی چادر اوڑھ کر سوجاتے ہیں۔ اگلا حادثہ پھر صورِ اسرافیل کی طرح جگاتا ہے اور ہم اصحاب کہف کی طرح پرانے سکے لے کر بازار میں نئے زخموں کی خریداری کے لئے نکل پڑتے ہیں ۔۔۔۔
میں اس سفر سے تھک چکی ہوں اس نیند سے جاگ چکی ہوں خدارا مجھے ملزم کو مجرم بننے کی نوید مت سنائیں مجھے یہ بتائیں کہ معاشرے کا ایک فرد ملزم کیسے اور کیوں بنتا ہے؟ وہ کیا عوامل ہوتے ہیں جن سے جنون اور درندگی نمو پذیر ہوتی ہے۔ جس ایک فرد کو سزا دی جاتی ہے اس کو مجرم بنانے والا معاشرہ کب اپنے گریبان میں جھانکے گا ؟ تشدد، جنسی درندگی، اقتدار و اختیار کا نشہ یہ وہ عفریت ہے جس سے بچنے کے لئے تعلیمی اور نفسیاتی سطح پر سوچنے کی ضرورت ہے ورنہ سارا معاشرہ ذہنی اعتبار سے حبس بے جا کی اذیت سے گزرتا رہے گا ۔۔۔
تعلیمی اداروں کو انسان سازی کا مرکز بنائیے ،گھر کو سکون کی آماجگاہ اور مذہبی مراکز کو عذاب و ثواب تقسیم کرنے والے مرکز سے زیادہ اخلاقی اور روحانی ترقی کا گھر بنائیے ۔۔۔۔۔ مسائل کو حل کرنے والوں کو پہچانئے، الجھانے والوں سے فاصلہ اختیار کیجیے، یہ سارے کام انفرادی طور پر شروع کریں خود بخود یہ اجتماعی شکل اختیار کر لیں گے۔ خدا را آئینہ دکھانے سے زیادہ آئینہ دیکھنے کے عادت اختیار کریں پھر اپنے خد وخال کو سنوارنے کا ہنر آجائے گا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn