Qalamkar Website Header Image

روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے – تسنیم عابدی

چچا غالب نے جرنیلی بندوبست (جسے عرفِ عام میں مارشل لا کہا اور ہمارے دورِ خاص میں جمہوری ڈکٹیٹرر شپ کہا جاسکتا ہے ) میں دلی شہر کے نئے جبری احکامات کو ایسے پیارے طرح بیان کیا کہ پرنم آنکھوں کے ساتھ پڑھنے والا بے ساختہ مسکرا دے مگر وہ خود بھی خالص تھے اور مارشل لا بھی خالص ظاہر ہے ہم جعلی لوگ ہیں اسی لئے سیاست ، مذہب، ادب،معاشرت ہر چیز نقلی اور جعلی ۔۔۔۔دوائیں جعلی ، فتوے جعلی ،حزب اقتدار جعلی،حزب اختلاف جعلی۔۔۔سب سے زیادہ تو جہاں دو نمبر مال ہے وہ میڈیا ہے
ایک مرتبہ اپنے زمانہ طالب علمی میں ہم بہن بھائیوں نے شام کا اخبار خرید لیا اخبار ہاتھ میں لینے سے یہ اندازہ ہوا کہ اخبار میں خبریں کم اور سرخیاں زیادہ ہیں پھر اپنے گھر کی انگنائی میں ایک دوسرے کو سرخیاں لگانی نہیں بلکہ سنانی شروع کئیں ۔۔۔۔۔رنگے ہاتھوں بھابی آشنا کے ساتھ پکڑی گئی ۔۔۔۔۔چار بچوں کی ماں آشنا کے ساتھ فرار۔۔۔۔۔۔ وزیر اعلی کے معاون خصوصی نشے کی حالت میں پائے گئے۔۔۔۔۔۔ہر چٹخارے دار خبر کو سناتے ہوئے ہر کوئی سمجھتا کہ اس کی خبر اصل خبر ہے۔۔۔۔۔۔اسی دوران اماں کی غصے سے بھری آواز گونجی یہ اتنی غیر مہذب اور سنسنی خیز خبریں کہاں سے پڑھ کر سنا رہے ہو ؟ہم سب ڈر گئے کیونکہ اماں بہت امن پسند اور دھیمے مزاج کی عورت تھیں کچھ ایسا ہی ہوتا تو ان کے لہجے میں شعلہ فشانی آجاتی ہم جو بازیچہ اطفال کی طرح خبروں کی دنیا میں تماشا دکھا رہے تھے شرمندہ سے ہوگئے اماں ! اخبار سے پڑھ رہے ہیں ۔۔۔۔کون سے اخبار سے صبح تو میں نے یہ سب کچھ نہیں پڑھا ۔۔۔۔بھائی کی آواز آئی ارے یہ ہم لوگ ابھی شام کا اخبار خرید کر لائے ہیں اخبار والا کہہ رہا تھا کہ شام کا تازہ اخبار مصالحے دار خبریں ۔۔۔۔۔تو ہم لوگوں نے خرید لیا پھر اب ہم مقابلہ کر رہے ہیں کہ کون زیادہ چٹ پٹی خبریں سناتا ہے؟
اماں نے ہمیں گھور کر دیکھا اور اخبار ہاتھ میں لے کر کہنے لگیں یہ اخبار ہے یا کسی کٹنی کی بپتا ؟ سسرال کی لڑائیاں ، بھاگ کر شادی کرنا طلاق لینا حمل ضائع کرانا بھئی کیا اب بی جمالو یا پھاپا کٹنی نے اخباری پیرہن پہن لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں بچو ایسی سنسنی کس کام کی جس میں نجی معاملات ہوں یہ خبریں نہیں یہ تو گھریلو معاملا ت ہیں جنہیں چار دیواری میں محفوظ رہنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کہہ کر انہوں نے اخبار کے پرزے پرزے کر دئیے اور ہم سب اپنی نادانستہ بیہودگی پر شرمندہ ہو گئے
سنا ہے زمانے نے ترقی کر لی ہے اسی لئے اب سب سے زیادہ ترقی صحافت کے شعبے میں ہوئی اب ایٹمی دور ہے اسی لئے خبر بھی ایٹم بم کی طرح گرائی جائےتو پھر بات بنتی ہے پرنٹ میڈیا نے الکٹرانک میڈیا کی جگہ لے لی اور سوشل میڈیا کا تو جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے کسی کو ذلیل کرنا ہو کسی پر فتوی لگانا ہو بس ایک ٹویٹ کی مار یا ایک فیس بک کی پوسٹ کی دیر ہے مردانہ وار گالم گلوچ کا بازار گرم ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔نان ایشو کو ایشو بنانے کی فیکٹری لگ جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ٹی وی کے اینکرز کو دیکھ کر محو حیرت ہی رہ جاتے ہیں ایک ہی وقت میں عالم، ڈاکٹر، مبلغ، مجتہد، مدبر، مجاہد، مقرر۔ رشک اتا ہے کاش ایسا گر ہم کو بھی آتا ہم تو وہ تیرہ بخت ہیں کہ حجاب پہننے کے باوجود مذہبی معاشرے میں اپنے اٹھتے سوالات کی وجہ سے ہمیشہ نمبر کٹواتے رہے اور ادبی ماحول میں باحجاب غزل سرائی پر رعایتی نمبر سےمحروم ہی رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اب اگر پنجاب میں حجاب پر پانچ نمبر ملنے لگیں تو شاید کچھ ازالہ ہو سکے مگر پنجاب کی حکومت بھلا کراچی اور امریکا کی رہائشی کے تو سارے نمبر منہا کردے گی جیسے مقامی شاعر ہونا نمبر دو ہونے سے زیادہ شرمناک ہے مشاعرے کے ٹکٹ نہیں بکتے!!!

حالیہ بلاگ پوسٹس