میری عمر پچپن سال ہوئی جاتی ہے اور بچپن سے اب تک میں معاشرے کے نشیب و فراز کو دیکھتی ہوں تو حیران رہ جاتی ہوں کہ اخلاقیات اور نظریات کے حوالے سے جس طرح بالعموم دنیا اور بالخصوص پاکستان رو بہ زوال ہے وہ اس تیز رفتار ترقی یافتہ دور کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔۔۔مجھے اپنے بچپن کی وہ معاشرتی علوم کی کتابیں یاد آتی ہیں جس میں ہمیں ان لوگوں کو بطور ہیرو پڑھایا جاتا تھا جو اپنے ذاتی مفاد کے لئے دین کا نام استعمال کرتے رہےکہیں کہیں دین کا تڑکا لگانے کے لئے سائنس کی کتابوں میں بھی اللہ اور رسول کا حوالہ دیدیا جاتا رہا تاکہ سائنس مشرف بہ اسلام ہو جائے ہائے ہائے جب اسلامیات کی کتاب کھولی تو اسلامی واقعات سے سائنس کے اصول اور خبط عظمت برآمد ہوا سورہ اخلاص کی تلاوت کرنے والوں کے پاس افسوس کوئی چیز خالص نہیں رہی ۔اشرافیہ کواندازہ ہے کہ مذہب کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور عوام کو اگر کسی بات سے متاثر کیا جاسکتا ہے تو وہ مذہب کا ملمع ہے مذہب کے نام پر بآسانی اپنے مخالف کو معاشرے میں ذلیل کیا جاسکتا ہے اس کی عزت کو تار تار کیا جاسکتا ہے اس کو قتل کیا جاسکتا ہے اور اگر زندہ رکھا جائے تو نشانِ عبرت بنایا جاسکتا ہے دین کی تشریح اور تاویل دین کے حساب سے نہیں مصلحت اور نظریہ ضرورت کے تحت کی جاتی ہے اور یہ ضروریات دو طرح کی ہوتی ہیں یا تو مالی یا نام و نمود۔غضب تو جب ہو جاتا ہے جب یہ دونوں خون آشام ضروریات یکجا ہو جائیں۔پھر کہوں گی کہ دیگر مذاہب کی بہ نسبت اسلام کے نام نہاد ہیروز نے یہ کام زیادہ مہارت سے انجام دیا۔ بر صغیر کی تاریخ میں جمہوریت تو ذرا کم کم پنپی مگر مطلق العنان سیاست اس زمین پر خوب پھلی پھولی ہندوستان پر بہت سارے خاندانوں نے حکومت کی بشمول مسلم حکمرانوں کے مگر عوام اور حکمرانوں کے درمیان نظریاتی اور سماجی خلیج میں فاصلہ بڑھتا ہی رہا عام آدمی بنیادی ضروریات کے لئے طلِ الہی کے حکم کا منتظر رہا وہ اختیار رفتہ رفتہ پھر جمہوریت کے چیمپینوں کے پاس منتقل ہوگیا حالات وہی رہے مسائل وہی رہے بس گویا پرانی شراب نے مٹی کے کوزوں کے بجائے کرسٹل کے نازک گلاسوں کو چھلکا دیا ۔تبدیلی جب بھی اوپر سے لائی جائے گی وہ عارضی اورکھوکھلی ہوگی تبدیلی اندر سے آئے تو بات ہےدرخت تب ہی بار آور ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے اس کی جڑ کی مضبوطی پر توجہ دی جائے کمزور پتوں پر چمکدار اسپرے کرنے سے بس وقتی طور پر ہی چمک اور شادابی آئے گی اور ذرا سی تیز ہوا چلی اور بے حقیقتی کا پول کھلا ۔تبدیلی لانے کے لئے علم کے فروغ کی ضرورت ہے علم بھی وہ جو دماغ کو بیدار کرے جہاں طالب علم کو سوال اٹھانے پر تحسین پیش کی جائے بجائے اس کے کہ اسے بے باک اور بد لحاظ سمجھا جائے اگر سوال ملکی مسائل کا ہو تو جواب کے بجائے غداری اور بغاوت کے اعزاز سے نہ نوازا جائے ۔ جمہوریت کے تماشائی ہمیشہ دو کرداروں سے واقف رہے حکومت اور اپوزیشن۔مگر ہم کو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تیسرا کردار فوج کا ہوگیا جو مقدس گائے کی طرح پوجا جانے لگا جس پر کوئی حکم نہیں چلا سکتا جس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا مگر وہ اپنے ڈنڈے سے دوست دشمن سب کو ہانک سکتا ہے ۔رہی سہی کسر نام نہاد مذہبی سوچ نے پیدا کر دی اور مقدس گائے کو مذہبی خلعت عطا کر دی تاکہ معاشرے کے حقیقی با عزت اور باشعور لوگوں کو با آسانی کچلا جا سکے ۔اسی لئے پاکستان کے فوجی حکمرانوں یا جرنیلوں کا جائزہ لیں تو کچھ مجاہد اور کچھ نیم مجاہد نظر آئے اس کی مثال ماضی قریب میں جرنیلوں کے طرزِ حکومت سے لگا لیں گویا ضیا الحق تو مردِ مومن قرار پائے اور مشرف صاحب لبرل مجاہد۔معاشرہ نظریاتی طور پر تقسیم ہو گیا افسوس کہ یہ تقسیم بھی مذہب کے نام پر ہی ہوئی سماجی نا ہمواری جو جہالت کے بعد بلکہ جہالت کے برابر معاشرے کا اہم مسئلہ تھا وہ پھر اسی بحث و تکرار میں کسی مسیحا کی منتظر رہی مذہب کی شدت پسندی نے لبرل کو بھی شدت پسند بنا دیا ۔اخلاق ، محبت اور سب سے بڑی چیز حکمت کی دکانیں خریدار کی منتظر ہی رہیں اب دنیا کے نقشے پر امریکا روس چین ہندوستان پاکستان عرب ممالک یا پھر یورپ سب اپنے اپنے شعبہ ہائے مفاد میں شدت پسند نظر آئے ۔اس شدت پسند دور میں ادیب شاعر فنون لطیفہ سے حقیقی محبت کرنے والے اگر گم شدہ ہو جائیں مار دئے جائیں یا ذلیل کئے جائیں تو حیران ہونے کی ضرورت نہیں ویسے بھی ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے مگر شاید ہر قسم کی اشرافیہ کو خطرہ یہی ہے کہ نمک کی مقدار کہیں بڑھ نہ جائے ورنہ پھر روٹی بے مزہ ہو جائے گی
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn