رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی عموماً گھروں میں سحر و افطار کی تیاری میں خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ اپنی بساط کے مطابق سحری اور افطاری میں خاص پکوان بھی بنائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اشیائے خوردونوش کی خرید وفروخت بھی عام دنوں کی نسبت اس ماہِ مبارک میں بڑھ جاتی ہے۔
معاشیات کا ایک اصول ہے کہ اگر صارفین کی تعداد بڑھ جائے تو اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر صارفین کی تعداد کم ہو جائے تو اشیاء کی قیمتوں میں بھی کمی آجاتی ہے۔
کچھ ایسا ہی رجحان رمضان المبارک کے آغاز میں دیکھنے میں آیا۔ پھلوں کی قیمتوں میں اس حد تک اضافہ ہوگیا کہ متوسط طبقے کا فرد تو ایک طرف، بہت سے کھاتے پیتے گھروں کے افراد یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کیا ان کی آمدنیاں ذریعہ حرام سے ہیں جو اتنا مہنگا پھل اپنے گھروں میں لے کرجائیں؟
بیان کردہ معاشی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے سوشل میڈیا پر کچھ پڑھے لکھے افراد کی جانب سے اس پر آواز اٹھائی، جس کے نتیجے میں طے پایا کہ تین روز تک ہر قسم کا وہ پھل جس کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ محسوس ہو اس کا بائیکاٹ کیا جائے۔ بائیکاٹ کے تین روز تک تو پھلوں کی قیمتوں میں کمی کا رجحان دیکھنے میں آیا اور بائیکاٹ کی آواز اٹھانے والے طبقے کو لگا کہ اس ضمن میں ان کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
رمضان المبارک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو انعام کے طور پر عطا فرمایا تاکہ اس ماہِ مبارک میں مسلمان تزکیہ نفس حاصل کرسکیں۔ غریب اور ناداروں کی مفلسی کو محسوس کیا جاسکے۔ مالی امداد سے ان کی دادرسی کی جاسکے۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ بجائے اس کےکہ ہم اس ماہِ مبارک میں نفلی عبادات میں مشغول رہیں، مفلسوں کی دل جوئی کریں، ہمیں ان گنتی کے چند دنوں میں بھی یہی فکر کھائے جاتی ہے کہ کسی طرح سحری اور افطاری میں وسیع وعریض دسترخوان بچھائے جائیں، روزہ رکھتے وقت جانوروں کی طرح کھا کھا کر اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں، ضرورت سے زیادہ اہتمام کرنے سے زیادہ تر کھانے کا بہت سا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ روزہ سادہ کھانے سے بھی رکھا اور افطار کیا جاسکتا ہے۔ ہم جس دین کے پیروکار ہیں اس کی تعلیمات ہمیں سادگی اپنانے کا ہی درس دیتی ہیں نہ کہ اسراف و تبذیر کی راہ اپنائی جائے۔
اپنی کوتاہیوں کا تمام تر ملبہ حکمران طبقے یا حکومتی اداروں پر ڈالنا بھی ٹھیک نہیں۔ بہت سے مسائل کا حل ہم خود بھی انفرادی طور پر نکال سکتے ہیں۔ کھانے پینے کی جو شے مہنگی لگے نہ خریدیں۔ ضروری نہیں کہ مطلوبہ شے ہونے سے ہی سحر و افطار کے تقاضے پورے ہوں۔ سادگی کی روش اپنانے سے بہت سے مسائل خود ہی حل ہوسکتے ہیں، دوسرے کے گال سرخ دیکھ کر اپنے گال تھپڑ مار کر سرخ کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟ اس پر کبھی خود سے سوال ضرور کیجیے کہ جتنا اسراف ایک وقت کے کھانے پر ہوتا ہے کہیں ایسا تو نہیں اس سے کئی ضرورت مندوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہونے سے بچائے جاسکتے ہیں۔
جس طرح گھروں میں بہت سے معمولی نوعیت کے مسائل کا حل سربراہ کے علم میں لائے بغیر خود ہی نکالا جاتا ہے بالکل اسی طرح بات بے بات حکمران طبقے یا اداروں کو دہائیاں دینے کی بجائے حل طلب مسائل کا حل خود بھی نکالا جاسکتا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں خاموش نیکیوں کا رجحان اپناکر دیکھیے جس میں حقیقی معنوں میں خوشی چھپی ہے۔ اس پوشیدہ خوشی اور اطمینان کو باہر لائیے۔ دیکھیے آس پاس بہت سے ہیں جو آپ کی اور میری امداد کے منتظر ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn