"مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پریوی کونسل نے کئی مواقع پہ مطلق ہندو لاء کو قتل اور محمڈن لاء کو ذبح کردیا،” قائد اعظم محمد علی جناح نے فروری 1925ء کو ہندوستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی کو بتایا
اسلام سے بے خبر، پریوی کونسل کے ممبران نے مسلم قانون کے انگریزی مطالعات پہ انحصار کیا-1897ء میں، پریوی کونسل نے یہ حکم جاری کیا ، ” ہندوستان میں عدالتوں کے لئے یہ غلط ہوگا کہ قرآن کے احکامات کی اپنی سی تعبیر کریں برخلاف ان تعبیرات کے جو کہ جید اور قدیم راسخ علمائے مفسرین نے کی ہے”-اس طرح سے شریعہ کی قرآنی تعبیرات کا گیٹ وے بند کردیا گیا اور پرانی تفاسیر ہی غالب آگئیں
پاکستان کی عدالتوں نے اس نکتہ نظر کو مسترد کردیا اور تخلیقی طور پہ قرآن اور حدیث کو کنسلٹ کیا-چند مستثنیات کو چھوڑ کر ، ہندوستانی عدالتوں نے ایسا نہیں کیا-” اسلام میں مذہبی خیالات کی تشکیل نو ” نامی خطبات اقبال کی کتاب میں علامہ اقبال نے لکھا، ” ہندوستانی مسلمانوں کے شدید قدامت پرست تناظر کے سبب ، ہندوستانی ججز صرف ان کتابوں تک محدود رہے جن کو مستند کہا جاتا ہے-نتیجہ اس کا یہ ہے کہ لوگ آگے کی طرف جارہے ہیں اور قانون ہے کہ جامد ہی ہے "
مسلمانوں نے اپنے ایشوز کو شاذونادر ہی خود ہی حل کیا ہے، تاہم، جب وہ ان کو ہندو احیائیت پسندوں جیسے جن سنگھ ہے یا آج اس کی پیش رو بی جے پی ہے کا سامنا ہوا تو انہوں نے اس طرف کا سوچا بھی-انہوں نے یہ اپنا وتیرہ بنالیا ہے کہ مسلم قانون کو ختم کیا جائے اور اسے "یکساں سول کوڈ ” سے بدل دیا جائے تاکہ مسلم شناخت کو مٹایا جاسکے
اکتوبر 1931ء میں، ایم کے گاندھی نے گول میز کانفرنس واقع لندن میں کمیٹی برائے اقلیتوں میں ایک میمورنڈم مشاورت کے لئے تقسیم کیا تھا-اس میں بہت واضح لکھا گیا، ” پرسنل لاءز کا تحفظ آئین میں خصوصی طور پہ رکھی گئی شقوں کے زریعے کیا جائے گا-ایک قرارداد کے ذریعے آل انڈیا نیشنل کانگریس نے اعلان کیا،” کسی بھی اقلیت کو اپنے پرسنل لاءز برقرار رکھنے کا اختیار ہوگا اور اکثریت کو ان میں کسی تبدیلی مسلط کرنے کا اختیار نہ ہوگا”-جناح کے نام اپریل 1938ء میں لکھے گئے ایک خط میں اس وقت انڈین نیشنل کانگریس کے صدر جواہر لعل نہرو نے لکھا کہ ان کی جماعت نے اعلان کیا ہے "وہ کسی بھی کمیونٹی کے پرسنل لاء میں مداخلت کی خواہشمند نہیں ہے
ناگزیر طور پہ یہ ٹھوس قسم کی ضمانتیں تقسیم کے بعد چلنے والی ہواؤں کے سپرد کردی گئیں-دسمبر 1948ء میں ریاستی پالیسی کے رہنماء اصول کے طور پہ ہندوستانی آئیں کا آرٹیکل 44 دستور ساز اسمبلی نے نافذ کیا، ” ریاست ہندوستان کے تمام علاقوں میں اس کے شہریوں کو محفوظ کرنے کے لئے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لئے کوشش کرے گی”-بنیادی حقوق کے برعکس ، رہنماء اصولوں کے بارے میں آئین کی شق 37 کے تحت یہ کہا گیا کہ ہندوستان کی کوئی عدالت ان کو اپنے طور پہ نافذ کرانے کے لئے حکم جاری کرنے کی مجاز نہ ہوگی-پھر بھی گزشتہ چند سالوں میں سپریم کورٹ نے حکومت سے یکساں سول کوڈ نافذ نہ کئے جانے بارے پوچھا ہے
1948ء کی دستور ساز اسمبلی میں مسلم اراکین نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا،وہ 2016ء میں سچ ثابت ہوگئے ہیں-حال ہی میں اترپردیش میں، پرائم منسٹر نرنیدر مودی نے کہا،” آئین میں دئے گئے حقوق مسلم عورتوں کو ملنا حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہے”-انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا،” مری مسلمان بہنوں کا کیا قصور ہے کہ جب ان کو کوئی تین طلاق کہتا ہے فون پہ تو ان کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے؟
کوئی بھی مودی کے مسلمان عورتوں کے لئے ظاہر کی جانے والی فکرمندی سے متاثر نہ ہوا-کیونکہ مودی نے ایسی فکرمندی اس وقت تو نہ دکھائی جب وہ اور ان کے مرد رشتہ دار 2002ء میں گجرات پوگرام میں مارے گئے تھے اور وہ چیف منسٹر تھے
اگلے سال کی شروعات میں اترپردیش میں جناؤ ہورہے ہیں-مسلمان ووٹ کل ووٹوں کا ایک بٹا پانچ ہیں-مودی جانتا ہے، بہرحال ، کہ مسلمان اس کے ان ریمارکس سے خوش نہیں ہوں گے-اس نے تو اپنی نظریں ہندؤ ووٹ پہ جمارکھیں ہیں-وہ ہندؤ کمیونٹی کو مذہبی خطوط ، جاتی کی لیکر کو مٹاکر ایک مٹھ کرنا چاہتا ہے تاکہ دوسری بڑی پارٹیوں کو ووٹ نہ مل سکیں
جس دن مودی کے ریمارکس سامنے آئے، اسی دن علی گڑھ یونیورسٹی کے معروف مورخ ، پروفیسر عرفان حبیب کی قیادت میں مسلم دانشوروں کے ایک گروپ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا، ” حکمران پارٹی کے رہنماؤں کے اندرعورتوں کے لئے اچانک سے محبت اور جینڈر جسٹس کا جذبہ پیدا ہوجانے پہ کسی کو اعتبار نہیں ہے”-اگرچہ وہ ہندوستان میں طلاق ثلاثہ کی مخالفت کرتے ہیں اور مسلمان عورتوں کی جانب سے اسے ختم کرنے کی حمائت کرتے ہیں-
1943ء میں مولانا مودودی نے رائے دی تھی، ” طلاق ثلاثہ ایک بدعت اور گناہ ہے جو بہت سی قانونی پیچیدگیوں کا سبب بنتی ہے-اگر لوگ جانتے کہ تین طلاقیں دینا بے کار اور ایک مرتبہ طلاق کہنے سے ہی شادی تحلیل ہوجاتی ہے-اور تین ماہ تک رجوع کا اختیار ہوتا ہے اور تین ماہ کے بعد پھر نکاح لازم ہوجاتا ہے،تو متعدد خاندانوں کو منتشر ہونے سے بچایا جاسکتا تھا
ہندوستانی مسلمانوں کو 1961ء کے پاکستانی عائلی قوانین کے آرڈیننس کو اپنانا ہوگا-یہ 90 دن کے اندر اندر صلح کی کوششوں کے لئے ایک مصالحتی کونسل کا قیام فراہم کرتا ہے-اس کی رو سے طلاق دینے کے لئے ایک تحریری نوٹس دینا ہوتا ہے اور اس کی کاپی مصالحتی کونسل کے چئیرمین کو دینا ہوتی ہے-مزید یہ عورت کو شادی ختم کرنے یعنی خلع لینے کا اختیار دیتا ہے
ایک لبرل شریعت انگریزوں نے مسخ کی- ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستانی عائلی قوانین 1961ء کی روشنی میں میں قانون میں اصلاح کرنے کی ضرورت ہے
ترجمہ و تلخیص : عامر حسینی
اے جی نورانی ممبئی میں رہائش پذیر ایک ہندوستانی مصنف اور قانون دان ہیں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn