ادیب کے خواب اور تخلیق میں مطابقت ادیب کی موت ہے- ولیم فالکنر
انٹرویو : ژاں ستاں
ترجمہ و تلخیص : عامر حسینی
پہلا حصّہ
ولیم فالکنر نیو البانے میسی پی میں 1897ء میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد اس ریل روڈ پہ کنڈکٹر کے طور پہ کام کررہے تھے جو اس ناول نگار کے دادا کرنل ولیم فالکنر نے تعمیر کی تھی جو کہ خود بھی کہ ” دی وائٹ روز آف میفیس ” ناول کے مصنف بھی تھے-جلد ان کا خاندان نیو البانے سے آکسفورڈ شفٹ ہوگیا جوکہ وہاں سے 35 میل دور تھا-یہاں پہ فالکنر جو کہ مطالعہ کا بہت شوقین تھا مقامی ہائی اسکول سے گریجویشن کرنے میں ناکام ہوگیا-1918ء میں وہ رائل کینیڈین آئر فورس میں فلائر اسٹوڈنٹ کے داخل ہوا-اولے مس یونیورسٹی میں اس نے ایک سال سے کچھ عرصہ زیادہ وقت بطور طالب گزارا اور بعد میں اس نے یونیورسٹی اسٹیشن پہ بطور پوسٹ ماسٹر کام کیا مگر جاب کے دوران پڑھنے کی پاداش میں اسے نوکری سے فارغ کردیا گیا-
شیرووڈ اینڈرسن کی حوصلہ افزائی پہ اس نے 1926ء میں اپنا پہلا ناول ” سولجرز پے ” لکھا-اور اس کی پہلی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ” سینکچوری ” تھی جو 1931ء میں سامنے آئی-اس ناول کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ یہ اس نے محض پیسے کمانے کے لئے لکھی تھی-اس کے ناول "ماسکیٹوز (1927ء ) ، سارٹورس (1929ء) ، دی ساؤنڈ اینڈ فیوری (1929ء) اور ایز آئی لے ڈائینگ (1930ء) اتنے پیسے کمانے میں اس کی مدد نہ کرسکے کہ وا اپنے خاندان کا خرچ چلا سکتا-
اس کے بعد فالکنز کے بتدریج جتنے بھی ناول سامنے آئے وہ ایک خیالی ٹاؤن یوکناپاٹوپھا کے گرد گھومتے ہیں : لائٹ ان اگست(1932)، پائیلون (1935) ، ایبسلوم ، ایبسلوم ! (1936ء) ، دی وائلڈ پامز ( 1939ء) ، دی ہیملٹ (1940ء) اور گو ڈاؤن ، موسس اور دیگر کہانیاں (1941ء) –دوےری جنگ عظیم سے اس کا بڑا کام ” انٹروڈر ان دی ڈسٹ (1948ء ) ، اے فیبل (1954ء) اور دی ٹاؤن (1957ء ) تھا –اس کے کہانیوں کے مجموعے کو 1951ء میں نیشنل بک ایوارڈ ملا-جیسے اے فیبل کو 1955ء میں ملا اور 1949ء میں فالکنر نے ادب کا نوبل انعام جیت لیا-
فالکنر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی انفارمیشن سروس کی طرف سے قریہ قریہ گھومنے اور لیکچر دینے کا سلسلہ شروع کئے ہوئے تھے تو 1956ء میں پیرس لٹریری ریویو کے نمائندے نے ان سے نیویارک سٹی میں ایک خصوصی انٹرویو کیا-
پی –آر: مسٹر فالکنر ، آپ کہہ رہے تھے کہ آپ کو انٹرویو دینا پسند نہیں ہے-
فالکنر : انٹرویو نہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ زاتی سوالوں پہ مرا ردعمل بھڑکیلا ہوجاتا ہے-سوال اگر مرے کام بارے ہوں تو جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں-اور اگر سوال مری زات بارے ہو تو ہوسکتا ہے جواب دوں اور یہ بھی ہے کہ نہ دوں –اور اکر وہی سوال اگلے دن گیا جائے تو ہوسکتا ہے جواب گزشتہ جواب سے مختلف ہو-
پی آر : بطور ادیب کیسے آپ کی زات کو الگ کیا جاسکتا ہے؟
فالکنر: اگر میں موجود نہ ہوتا تو کوئی اور لکھتا جو میں نے لکھا، ہیمنگوے نے لکھا ، دستوفسکی نے لکھا ، ہم سب نے جو لکھا –اس کا ثبوت یہ ہے کہ شیکسپئیر کے ڈراموں کے خالق ہونے کے دعوے دار تین لوگ ہیں-لیکن جو اہم ہے وہ "ہیملٹ : اور ” مڈ سمرز نائٹ ڈریم ” ہے نہ کہ وہ جنھوں نے اسے لکھا-، بلکہ کسی نا کسی نے تو یہ کرنا ہی تھا-آرٹسٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے-بس وہ جو تخلیق کرتا ہے اس کی اہمیت ہے جبکہ جو بھی کہا گیا اس ميں کوئی بھی تو نئی چیز نہیں ہے-شیکسپئیر ، بالزاک ، ہومر سب سے ایک جیسی چیزوں کے بارے لکھا اور اگر وہ ایک ہزار سال یا دو ہزار سال بھی زندہ رہتے تو ناشر کو کسی کی بھی صرورت نہیں رہنی تھی –
پی آر: لیکن اگر کچھ مزید کہنے کی نہ بھی ضرورت لگتی ہو تو کیا پھر بھی ادیب کی انفرادیت کی اہمیت باقی نہیں رہتی ؟
فالکنر : خود اس کے لئے بہت اہم ہے-ہر فرد کو انفرادیت بارے خیال کرنے کے لئے اپنے کام میں بہت مصروف ہونا چاہئیے-
پی آر: آور آپ کے معاصرین ؟
فالکنر: ہم سب کے سب اپنی کاملیت کے خواب سے مطابقت کرنے میں ناکام رہ گئے-تو میں بشمول خود سب کو ناممکن کو کردکھانے کی شاندار ناکامی کے نمبر دیتا ہوں-مرے خیال ميں اگر مين اپنے سارے کام کو دوبارہ لکھ پاؤں تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس سے بہتر ہوگا جو کہ ایک آرٹسٹ کے لئے سب سے صحت مند شرط ہے-یہی وجہ ہے کہ وہ کام کرنا جاری رکھتا ہے-بار بار کوشش کرتا ہے-وہ یقین رکھتا ہے کہ ہر دفعہ وہ اسے کرلے گا اور اسے ختم کرلے گا-بہرحال وہ نہیں کرپاتا ، اسی لئے یہ صحت مند شرط ہے-ایک بار اس نے کرلیا ، ایک دفعہ اس نے اپنے کام کو تخیل کے مطابق کرلیا ، خواب کے مطابق ڈھال لیا تو اس کے پاس سوائے اپنا گلہ کاٹنے کے اور کچھ کرنے کو نہیں رہے گا-یا وہ تکمیل کی دوسری حد کو پانے کے لئے خودکشی کا راستہ اپنائے گا-میں ایک ناکام شاعر ہوں-شاید ہر ایک ناول نگار پہلے شاعری لکھنا چاہتا ہےاور اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ نہیں کرسکتا تو تب وہ ” افسانے ” کو آزماتا ہے جو کہ شاعری کے بعد سب سے زیادہ مطالبہ کی جانے والی صنف ہے-اور افسانے کے باب میں ناکامی پہ ہی وہ ناول لکھنے کی جانب رخ کرتا ہے
پی آر: کیا ایک بہترین ناول لکھنے کا کوئی فارمولہ موجود ہے ؟
فالکنر : 99 فیصدی ٹیلنٹ ۔۔۔۔۔۔ 99 فیصدی ڈسپلن ۔۔۔۔۔ 99 فیصدی کام –وہ کبھی بھی اپنے کئے سے مطمئن نہیں ہوسکتا-یہ اتنا اچھا نہیں ہے جتنا اسے بنایا جاسکتا تھا-خواب اور شوٹ ہمیشہ اس آگہی سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں جس کے زریعے سے آپ کہتے ہو کہ آپ اتنا اچھا لکھ سکتے ہو-اس بات پہ مطمئن ہو بیٹھنا کہ آپ اپنے سے پہلے والوں سے یا معاصرین سے بہتر ہو ٹھیک نہیں ہے-اپنے آپ سے کہیں زیادہ بہتر ہونے کی کوشش کرو-ایک آرٹسٹ ایسی مخلوق ہوتا ہے جسے شیاطین چلارہے ہوتے ہیں-اسے نہیں پتہ ہوتا کہ اسے کیوں انہوں نے چنا ہے اور عام طور پہ وہ ” کیوں ” کی حیرانی میں سرگرداں ہوتا ہے-اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ رہزنی کرے گا ، مستعار لے گا،بھیک مانگے گا یا کسی شخص سے چرا لے گا اور ہر آدمی کو اپنا کام کرنا بھی پڑتا ہے-
پی آر : تو آپ کا مطلب یہ ہے کہ ادیب کو قطعی بے رحم ہونا چاہئیے؟
ادیب کی صرف زمہ داری اس کا اپنا آرٹ ہے-وہ بالکل بے رحم ہوگا اگر وہ اچھا آرٹسٹ ہے تو –اس کے پاس ایک خواب ہوتا ہے-یہ اس کو اتنا تنگ کرتا ہے کہ اسے اس سے نجات حاصل کرنا ہوتی ہے-وہ تب تک چین سے نہیں بیٹھتا-اس سفر میں اس کی ہر شئے جاتی ہے: عزت ، تفخر ، نفاست ، تحفظ ، خوشی اور سب کچھ تاکہ ایک کتاب لکھی جاسکے-اگر ایک لکھاری کو اپنی ماں کے ہاں چوری کرنی پڑے تو وہ کرگزرے گا –
پی آر : آرٹسٹ کی تخلیقیت میں تحفظ ، خوشی اور عزت کی کمی کیا اہم فیکٹر ہوسکتی ہے؟
فالکنر: نہیں-وہ اس کے سکون اور اطمینان کے لئے اور آرٹ کو سکون و اطمینان سے کچھ لینا دینا نہیں ہے-
پی آر : پھر ایک ادیب کے لئے بہترین ماحول کیا ہوسکتا ہے ؟
فالکنر: آرٹ کو ماحول سے کچھ لینا دینا نہیں ہے؛اسے زرا پرواہ نہیں ہوتی ہے اس بات کی کہ یہ کہاں ہے –اگر تم مرے بارے میں پوچھو تو مجھے کبھی اگر سب سے بہترین نوکری کی آفر اگر کی گئی تو وہ ایک چکلے کا لینڈلارڈ ہونے کی پیشکش تھی-مرے خیال میں کسی آرٹسٹ کے کام کرنے کے لئے یہ بہترین جگہ ہے-یہ اسے مکمل معاشی آزادی دے ڈالتی ہے-وہ بھوک اور خوف سے آزاد ہوجاتا ہے-اس کے سر پہ چھت ہوتی ہے-اور اسے سوائے چند سادہ کھاتوں کے اور کچھ کرنا نہیں ہوتا اور ہر ماہ اسے تھانے جاکر مقامی پولیس کو ادائیگی کرنا ہوتی ہے بس-یہ جگہ صبح کے اوقات میں بالکل خاموش ہوتی ہے جوکہ آرٹسٹک کام کرنے کے لئے بہترین وقت ہے-اور پھر شام کو کافی سوشل لائف ہوتی ہےاگر آپ کو اس میں شرکت کی چاہ ہے تو جو آپ کو بوریت سے دور رکھتی ہے-اور یہ کام اسے سوسائٹی میں خاص مقام بھی دے ڈالتا ہے-گھر کے سب مکین عورتیں ہی ہیں –اور اسے سر کہنے کو ترجیح دیتی ہیں-اور پڑوس کے لوگ بھی اسے "سر ” ہی کہتے ہیں-اور وہ پولیس والوں کو ان کے نام کے پہلے حصّے سے پکار سکتا ہے-تو آرٹسٹ کو جس ماحول کی ضرورت ہوتی ہے وہ سکون ہو ، تنہائی ہو ، خوشی ہو تو وہ اسے کوئی بہت بڑی قیمت چکائے بنا حاصل کرسکتا ہے-تمام غلط ماحول اس کے فشار خون کو بلند کرے گا اور اس کا زیادہ وقت فرسٹریشن اور برہمی کے ساتھ گزرے گا –مرا اپنا تجربہ ہے کہ مجھے اپنے فن کے لئے جو ٹول درکار ہوتے ہیں وہ کاغذ ، ٹوبیکو ، فوڈ اور تھوڑی سی وہسکی ہیں-
پی آر : بوربون (شراب کا نام ) ،آپ کا مطلب ہے ؟
فالکنر: میں خاص اس بارے بات نہیں کررہا-سکاچ اور کچھ نہ ہونے کے مابین مرا انتخاب سکاچ ہوگا-
پی آر : آپ نے معاشی آزادی کا بھی تو ذکر کیا تھا –کیا ادیب کو اس کی ضرورت ہوتی ہے ؟
فالکنر: نہیں-ادیب کو معاشی آزادی کی ضرورت نہیں ہے-اسے تو بس ایک پنسل اور کچھ کاغذ درکار ہوتے ہیں-میں نے آج تک کوئی بھی اچھی تحریر ایسے وقت میں تخلیق ہوتے نہیں دیکھی جب ادیب کے پاس مفت میں آنے والا رقم کا تحفہ موجود ہو –اچھا ادیب کسی فاؤنڈیشن کو درخواست نہیں دیتا-وہ تو کچھ نہ کچھ لکھنے میں بہت مگن رہتا ہے-اگر وہ صف اول کا ادیب نہیں ہے اور اپنی اس کمی کے لئے وہ فراغت نہ ہونے یا معاشی آزادی کے میسر نہ آنے کو قصوروار ٹھہراتا ہے تو وہ اصل میں اپنے آپ کو بیوقوف بناتا ہے-اچھا آرٹ تو چوروں کے ہاں ، اچکّوں کی طرف یا گھوڑے اڑالیجانے والوں کے ہآن بھی جنم لے سکتا ہے-لوگ اس بات کو پالینے سے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ مصائب اور غربت میں وہ کہاں تک کھڑے رہ پائیں گے-وہ یہ جان لینے سے گھبراتے ہیں کہ وہ کسقدر سخت کوش ہیں –اچھے ادیب کو کوئی بھی چیز تباہ نہیں کرسکتی –اچھے ادیب کو اگر کوئی بدل سکتی ہے تو وہ موت ہے-اچھے ادیبوں کے پاس کامیاب ہونے یا امیر بن جانے کی فکر کرنے کا وقت نہیں ہوتا-کامیابی ایک نسائی پن ہے اور عورت کی طرح ہے-اگر تم اس کے آگے دبوگے تو وہ تم پہ سوار ہوجائے گی-تو اس سے نبٹنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسے اپنے ہاتھ کی پشت دکھاؤ تو ہوسکتا ہے وہ منمنانے لگے-
پی آر : فلموں کے لئے کام کیا آپ کے ادبی کام کو متاثر کرسکتا ہے ؟
فالکنر:کوئی بھی دوسرا کام ایک ادیب کے ادبی کام کو زخمی نہیں کرسکتا اگر وہ صف اول کا ادیب ہے تو-اگر ایک آدمی صف اول کا ادیب نہیں ہے تو کوئی بھی شئے اس کی مدد نہیں کرسکتی-اور یہ مسئلہ کسی اوسط درجے کے ادیب کا تو ہوہی نہیں سکتا کیونکہ وہ تو پہلے ہی اپنی روح سوئمنگ پول کے بدلے فروخت کرچکا ہوتا ہے-
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn