بارہ فروری
سنہ 2001
وقت گیارہ بجے رات
مسقط سے
پیاری بیٹی قرۃ العین۔
ڈھیروں دعائیں۔
بچے ماں باپ کی بہت سی عادتیں بے سوچے سمجھے اپنائے چلے جاتے ہیں، انہیں غلط یا صحیح سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ شعور کی عمر کو پہنچتے ہیں تو یہ عادتیں فطرت بن جاتی ہیں اور اُن کی ذات کا ایک حصہ بھی۔
ایسے بچے۔۔میرے ابو یوں۔۔میری امی ایسے ۔۔۔کا بہت استعمال کرتے ہیں۔
آپ نے بڑی محنت سے باپ کی جس عادت کو اپنایا، پالا پوسا اور اپنے ساتھ بڑا کیا وہ ہے بھولنے کی عادت۔
مثلاً اپنی آنٹی کے ہاتھ ریواڑی کا سوہن حلوہ بھیجنا اور ٹیلیفون پہ بتانا کہ میں نے اُن کے ہاتھ کچھ نہیں بھیجا۔
مثلاً باپ کو کہہ کر جانا کہ میں یونیورسٹی میں بینک اکاؤنٹ کھلوا لوں گی اور اکاؤنٹ نمبر آپ کو بھیج دوں گی اور پاکستان جا کر بھول جانا۔
مثلاً یہ کہہ کر جانا کہ میں مہینے میں دو بار "ضرور” فون کروں گی۔ضرور پر زور دینا تاکہ ماں باپ دوبارہ نہ پوچھیں ۔ اور کبھی مہینے میں ایک فون کر کے خاموش ہوجانا۔
مثلاً یہ وعدہ کر جانا کہ سردی آنے سے پہلے سوئٹر، کوٹ خرید لوں گی اور چار درجہ حرارت پر ستارہ کی لان پہن کر بیمار پڑ جانا۔
مثلاً یہ بھول جانا کہ یہ دُبلا ، پتلا شخص جو عرصہ سے تندرستی سے خفا خفا سا ہے۔ روز اس کڑاکے کی سردی میں مجھے یونیورسٹی چھوڑنے آتا ہے، جان پر کھیل کر گھر واپس پہنچتا ہے۔ دراصل میرا اپنا سگا ماموں ہے۔ ماں کو یہ بتانا ہی نہیں کہ ان کا لاڈلا بھائی بیمار ہے۔
اپنے باپ کی ماں کا شہد، زعفران اور میوے کا تھیلا یہیں پھینک جانا اور معذرت کے دو لفظ اُنہیں نہ کہنا، نہ ہی لکھنا اور یہ بھول جانا کہ مہذب لوگ اپنی غلطی کے اعتراف اور معذرت میں کبھی دیر نہیں کرتے۔
اپنے کپڑے، جوتے، گھڑی، کریم، سب بھول جانا اور سمجھنا کہ ساتھ لے آئی ہوں۔
سچ جانیے یہ نہ تنقید ہے، نہ طعنہ، نہ شکایت۔ یہ حقیقتِ حال ہے۔
اپنی جوانی میں ہم آپ سے بد تر تھے۔ غالب، میر، داغ سے لے کر فیض و ساحر سب یاد رہتا بس ماں نے بازار سے کیا منگوایا ہے یہ بھول جاتا۔
کتابوں اور مضمونوں کے حوالے یاد رہتے ماں کی کی ہوئی نصیحت بھول جاتی۔
ہم نے نتیجہ یہ نکالا کہ حافظے کا تعلق دماغ سے کم اور ترجیحات سے زیادہ ہے۔ ساری بات priority کی ہے۔
اچھے ماں باپ کا فرض اولاد کو نیک و بد سمجھانا ہے۔ نیک اولاد کا فرض ماں باپ کے تجربے سے فائدہ اٹھانا ہے۔ ہم اپنے تجربے کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتے، بس اتنا کہتے ہیں کہ ہوشیار لوگ وہ ہوتے ہیں جو دوسروں کے تجربے سے سبق سیکھتے ہیں اور جو ہوشیار کے متضاد ہوتے ہیں وہ خود بار بار تجربے سے گزر کر بھی کچھ نہیں سیکھتے ۔
آپ کے اور آپ کے دوستوں کیلئے دعائیں اور پیار۔
فقط آپ کا والد۔
حامد علی
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn