Qalamkar Website Header Image

ماں – سید زیدی

اُس عورت سے جان پہچان ہوئی تو میں شعور کی آنکھ کھول رہا تھا
پرائمری اسکول میں پڑھنے والے بچے کُچھ ایسے ہوشیار بھی نہیں ہوتے لیکن میں اخبار پڑھ لیتا تھا
اِس چیز کو بڑھاوا ماسٹر شیر محمد صاحب نے دیا کہ جب بھی جماعت میں نثر یا نظم پڑھائی جاتی وہ مجھے کھڑا کرلیتے
جب سردیوں کے موسم کی چاپ سُنائی دیتی تو وہ عورت مُجھے اون کی لچھیاں لانے کے پیسے اور فہرست دیتی جس میں رنگ اور وزن لکھا ہوتا اور کبھی کبھی سلائیاں اور اُن کا سا ئز بھی
دُھند کے لحاف میں لپٹا نیم دیہاتی قصبہ سرِشام ہی اُونگھنے لگتا
لوگ سادہ ، ضرورتیں محدود اور اندر کا انسان زندہ ہو تو لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لئے بہت وقت ہوتا ہے
محلے میں کوئی بیمار ہوتا تو پورے محلے کو پتہ چل جاتا۔ اکثر لوگ کھانا بنا کر بھیج دیتے کہ یہ معاشرے کے پیار کا طریقہِ اِظہار تھا ۔
موٹی موٹی غلافی آنکھیں ، سُتواں ناک ، قدرے لمبا چہرہ سرخ و سفید رنگت آواز میں ملائمت اور چہرے پہ متانت اور نادیدہ سی مُسکراہٹ
ہر وقت سر پہ دوُپٹہ ، ہمیشہ ہلکے رنگوں کے کپڑے ، کھڑی ہوتی تو پتہ چلتا کہ ابھی ابھی کوہ قاف سے آئی ہے
چلتی تو لگتا کہ اردگرد کی ہر شے گردش میں ہے اور اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی ہے
میں کہانیاں پڑھنے لگا تھا ، گھر میں کتابیں تھیں اخبار اور رسالے تھے ،
لوگ مانگے کی کتابیں پڑھنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے تھے ،
اکثر اخباروں کا بھی یہی حال تھا لیکن پہلا حق خریدار کا ہوتا تھا ۔
سکول کی لائبریری تھی لیکن صرف ہائی سکول کے لڑکوں کے لئے
لوگ علم کے رسیا تھے ۔ قصبے میں کوئی مشاعرہ یا جلسہ ہوتا تو کوئی جائے یا نہ جائے پتہ سب کو ہوتا تھا ۔
صُبحِ صادق سے کہیں پہلے وہ عورت لالٹین کی پیلی روشنی میں سائے کی طرح چلتی دکھائی دیتی
پھر وہ مصلے پہ جا بیٹھتی اور دیر تک نیم خوابیدہ گھر والوں کے کانوں میں آیتوں اور مناجات کی آواز گونجتی رہتی ۔
پھر اچانک آنگن میں لگے کیکر کے درخت کے نیچے سے لسی بلونے کی وہ آوازیں سنائی دیتیں جو سب گھر والوں کو بستر چھوڑنے کا اشارہ ہوتیں
مرُغیوں کا دڑبہ کھول دیا جاتا ۔ بچے دڑبے میں انڈے تلاش کرنے لگتے ۔
دئے گُل کردئے جاتے ، لالٹین بُجھا دی جاتی ۔
وہ عورت دھوئیں بھرے باورچی خانے میں سیلی سُلگتی لکڑیوں سے لیکر گھر کے ہر فرد کی فرمائش سے نپٹتی لیکن مجال ہے کہ زبان سے ایک لفظ یا ماتھے پہ ایک بل آتا ہو
آرام سے بیٹھنا تو سیکھا ہی نہیں تھا
ایک بار مجھے شدید بخار ہوا تو وہ عورت رات بھر سرہانے بیٹھ کر پانی کی پٹیاں ماتھے پہ رکھتی رہی ۔
اگلی صُبح میں اسکول نہیں گیا ۔
جب سب لوگ چلے گئے تو وہ عورت وہی مُسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے آن موجود ہوئی ۔
بُخار کی حالت میں آپ کُچھ بھی بولتے ہیں
ماتھے پر پٹی رکھنے لگی تو میں نے پوچھا کہ آپ اتنے ہلکے رنگ کیوں پہنتی ہیں ؟
شوخ رنگ کیوں نہیں پہنتیں؟
مُجھے آج تک افسوس ہے کہ کیوں پوچھا ۔
پلکوں پہ دو ستارے چمکے ،دوپٹے کے پلو سے آنکھیں صاف کر کے کہنے لگی ،
میں یتیمی میں پلی ہوں ۔گہرے رنگ پہننے کو کبھی دل ہی نہیں کیا۔
میں بچہ تھا اور تو کُچھ بن نہ پڑا ماں کا سرد ہاتھ لے کر اپنی تپتی ہوئی پیشانی پہ رکھ کر اُوپر اپنا ہاتھ رکھ لیا ، اب رونے کی میری باری تھی ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس