باؤ جی دو بار میرے سکول آئے۔ ایک بار داخلے کے وقت اور دوسری بار جب ماسٹر سردار عالم صاحب نے میٹرک کا داخلہ روک لیا کہ کھیلوں اور غیر نصابی سرگرمیوں میں اس کی ضرورت سے زیادہ دلچسپی سکول کا رزلٹ خراب نہ کر دے۔ باؤجی جہاندیدہ تھے انہیں باپ کی حیثیت سے یہ بھروسہ تھا کہ بیٹا جھوٹ نہیں بولے گا۔ کھلے ذہن کے آدمی تھے اور غیر نصابی سرگرمیوں اور کھیلوں کو تربیت کا حصہ سمجھتے تھے۔ اکثر کہتے کہ کھیل میں جیت ہار انسان کی شخصیت کو متوازن بناتی ہے۔ جیتنے سے کامیابی اور آگے بڑھنے کی لگن پیدا ہوتی ہے اور ہارنے سے صبر اور برداشت کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔ صحت مند جسم میں ہی صحت مند دماغ ہوتا ہے، قول کے قائل تھے۔
اخبار , رسالے کتابیں جو بھی گھر میں آتے تھے وہ سبھی گھر والے پڑھتے تھے۔ کبھی کوئی بات سمجھ نہ آتی تو پوچھنے پہ فکر کے نئے زاوئیے کھول دیتے۔ بنا پوچھے کسی کو مشورہ نہ دیتے اور اگر کوئی آدمی سمجھ میں نہ آتا تو ایک غیر محسوس انداز سے اس سے دوری اختیار کر لیتے۔
شفقت مجھ سے سات آٹھ سال بڑا رہا ہوگا۔ کھلنڈرا، محفل پسند، میلوں ٹھیلوں کا شوقین ۔ ۔ ۔ میٹرک کرکے نکلا تو کالج دوسرے شہر میں تھا۔ ماں باپ نے بہتیرا سمجھایا لیکن وہاں جانے پہ راضی نہ ہوا۔ وہ گھر اور دوستوں کو ہی اپنی دنیا سمجھتا تھا،قصبے میں ہی رہنا چاھتا تھا۔ صاحب کبھی ہز ماسٹرز وائیس کا ریکارڈ پلئیر اٹھائے چلے آ رہے ہیں تو کبھی مداری سے بندر خرید کر محلے بھر کے بچے بڑوں کو متوجہ کر رہے ہیں۔ یاروں کا یار، زندگی کی حرارت سے بھرپور، ان لوگوں میں سے جو زندگی جینا جانتے ہیں۔ گھر کا ہیرو تھا، قد کاٹھ چہرے مہرے اور اپنے اخلاق سے دوسروں کو متاثر کرنے والا۔ جوانی یوں بھی استطاعت بھر اچھا پہننے اوڑھنے کی عادتیں ساتھ لے کر آتی ہے۔
ہر وقت محلے بھر کے کاموں میں مصروف رہتا۔ تھانہ کچہری، ہسپتال، ریلوے اسٹیشن، لاری اڈا ۔ ۔ ۔ کبھی کسی کے ساتھ ہیں کبھی کسی کو چھوڑنے جا رہے ہیں کبھی لینے جا رہے ہیں۔ خالو فضل احمد کا ٹرکوں کا اڈا تھا اپنی عقل بھر انہی نے مشورہ دیا کہ شفقت اگر آگے پڑھتا نہیں تو اس کو مصروف رکھنے کے لئے کیوں نہ اسے ایک ٹرک لے دیا جائے۔ کام میں الجھے گا تو خود ہی آٹے دال کا بھاؤ پتہ چل جائے گا۔
میں پڑھنے کے لئے دوسرے شہر چلا گیا۔ کبھی گھر سے کوئی خط آتا تو میں جواب لکھ دیتا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں گھر آیا، دروازہ کھلا ہی تھا۔ داخل ہوا تو گھر میں ایک پراسرار سی خاموشی تھی ۔ ۔ ۔ کوئی استقبال نہیں ہوا۔ ماں مصلے پہ بیٹھی تھیں، پتہ تھا کہ نماز کے بعد آدھا گھنٹہ مناجاتیں پڑھی جائیں گی، والد صاحب سے ملنے بیٹھک کی طرف لپکا۔ وہ چارپائی پہ کچھ کتابیں بکھرائے بیٹھے تھے۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے میرے جھکے ہوئے سر پہ ہاتھ پھیرا۔ میں پائنتی کی طرف بیٹھ گیا۔ بہنوں کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ تمہاری نانی کے ہاں گئی ہوئی ہیں۔ میں نے خود ہی شفقت کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ چلیں گے اور میں سمجھا کہ پڑھنے سے فارغ ہوکر خالو فضل احمد کے اڈے پہ چلیں گے۔ میں نے اس کے لئے چمڑے کی چپل خریدی تھی ۔ ۔ ۔ اسے چپلیں بہت پسند تھیں۔
پھر انہوں نے وہ کتابیں سمیٹ کر طاق میں رکھیں۔ میں نے ان کی جوتیاں سیدھی کیں۔ وہ پہن کر جھکے جھکے کھڑے ہو گئے۔ ہم دونوں ماں کو مصلے پر ہی چھوڑ کر باہر نکلے۔ راستے میں میں نے انہیں کہا باؤجی ہمیں تو خالو فضل احمد کے اڈے پہ جانا ہے ۔ ۔ ۔ وہ بغیر سنے چلتے رہے۔ میں ان کے پیچھے چلتا رہا، راستے پہچانتا تھا لیکن میں نے دوبارہ نہیں ٹوکا۔ نلکے سے کچھ پہلے اکھاڑے کے قریب ہی ایک تازہ بنی ہوئی قبر پہ پہنچ کر انہوں نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھا دئے۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس قبر اور شہر خموشاں کو دیکھ رہا تھا۔


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn