بادشاہ نے اپنے خاص نوکر کو کہا کہ نائی کو اندر بھیج دو ” آج بادشاہ سلامت کی حجامت کا دن تھا. نائی اندر جا رہا تھا اور بادشاہ سلامت کا ایک خاص وزیر جو بہت عقل مند مشہور تھا باہر نکل رہا تھا. نائی وزیر کو پہچانتا تھا کہ کئی بار وہ وزیر کی بھی حجامت بنا چکا تھا. وہ آداب بجا لایا اور اندر چلا گیا. بادشاہ سلامت شاہی حمام میں تشریف فرما تھے. حجامت سے فارغ ہوکر نائی نے اوزار رکھ دئے ”. ہاتھوں سے چمپی اور زبان سے خوشامد میں مصروف ہو گیا.
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
حق تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
بادشاہ کے سر کو ڈھنگ سے سہلایا تو بادشاہ نے اپنے صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے پوچھا کہ جمن ہم تمہاری خدمت سے خوش ہووئے مانگ کیا مانگتا ہے ؟ نائی نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ حضور کا دیا کھاتا ہوں ” بس ایک حسرت ہے بادشاہ نے پوچھا کہ وہ کیا؟ حجام بولا کہ ایسے ہی میرے دل میں خیال آیا کہ کیا میں آپ کے آپ کے ان وزیر سے عقل میں کم ہوں جو ابھی یہاں سے گئے ہیں ”بادشاہ نے نائی کا ارادہ بھانپتے ہوئے پوچھا کہ وزیر بننا چاہتے ہو؟ اس کے لئے ایک شرط ہے ۔۔ ایک امتحان ہے اس میں کامیاب ہونا ہو گا.
بادشاہ نے کہا کہ یہ امتحان آج ہی سے شروع ہو گا. ہماری بندرگاہ پر کیا ہو رہا ہے اس کی معلومات لانی ہیں. نائی اگلے روز آیا اور کہا حضور ایک جہاز لنگر انداز ہوا ہے. یہ جہاز کہاں سے آیا ہے؟ نائی شام کو آیا اور بادشاہ کو بتایا کہ جہاز ہندوستان سے آیا ہے. بادشاہ نے پوچھا کہ کہاں جائے گا؟ نائی اگلی شام معلومات لے کر لوٹا کہ مصر جا رہا ہے. بادشاہ نے اگلا سوال کیا کہ جہاز پہ کتنے لوگ ہیں؟ نائی اگلی شام پھر حاضر ہوا اور بتایا کہ سات سو پچاس آدمی ہیں ۔ بادشاہ نے پوچھا کہ جہاز پر کیا لدا ہے ؟ حجام اگلے روز آیا اور کہا کہ چاول اور مصالحہ جات ہیں۔ حجام روز روز کے سوالوں سے تنگ آ چکا تھا.
بادشاہ نے اگلے روز نائی کی موجودگی میں اپنے وزیر کو بلا بھیجا اور کہا کہ ہمیں اپنی بندرگاہ کی معلومات چاہییں ”وزیر گھوڑے پر گیا اور دو گھنٹے میں واپس آ گیا. کہنے لگا بادشاہ سلامت آپ کا اقبال بلند ہو۔ بندرگاہ پہ ایک جہاز لنگر انداز ہوا ہے ہندوستان سے آیا ہے ‘ مصر جا رہا جہاز پر مصالحے اور چاول لدے ہیں اور سات سو پچاس آدمی ہیں۔ مہینے کی بیس تاریخ کو بندرگاہ سے نکل جائے گا ” محصول دے چکا ہے نائی نے یہ باتیں سنیں تو چپکے سے اپنے اوزاروں کی تھیلی اٹھائی اور محل سے نکل گیا ۔۔
سنا ہے کہ باقی عمر وہ صرف حجامتیں بناتا رہا ” آدمی کو جو کام آتا ہے وہ پوری ایمانداری سے کرنا چاہئیے اور اگر نہیں آتا تو سیکھنا چاہئیے اور سیکھ لے تو صحیح وقت پر صحیح طریقے سے کرنا چاہیئے۔
خواہشیں ‘ خواب اور حقیقت الگ الگ چیزیں ہیں۔ کہانی کا پیغام : بادشاہ کو اپنے عملے کی تعیناتی ہمیشہ صلاحیت اور قابلیت پر کرنی چاہیئے ہمخیالی اور چاپلوسی پر نہیں.
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn