آغا شورش کاشمیری صاحب اللہ جنت نصیب کرے شاعر تھے، ادیب تھے، مقرر تو ایسے کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی ۔
چٹان رسالہ نکالتے تھے
” پس دیوار زندان” اور "اس بازار میں ” کے مصنف تھے، دوسری کتاب جس کا ذکر ابھی ہم نے کیا اس میں دنیا کے ایک قدیم ترین پیشے کا ذکر بھی کیا ۔
اگر وہ حیات ہوتے تو ہم ان سے ان کے لکھے پہ نظر ثانی کی درخواست کرتے۔
اس میں ہماری تحقیق تو تقریبا صفر ہے لیکن وجدان سو فیصد سے کچھ اوپر ہے کہ انسان نے اپنے ارتقا سے ہی ذخیرہ اندوزی سیکھ لی تھی ۔پھل زیادہ ہوتے تو سکھا کے جمع کر لیتا، شکار کا گوشت اور مچھلی بچ رہتے تو محفوظ کر لیتا،اب اس جمع شدہ ذخیرے کو بچانے کے لیے جانوروں کے علاوہ اس کا پالا دو طرح کے لوگوں سے پڑتا تھا ،ایک اس سے چھین کر لینا چاہتا تھا اور دوسرا مانگ کر ۔
زمانہ بدلا اور یہ دونوں آج بھی اس محنتی ذخیرہ اندوز کا پیچھا کر رہے ہیں ۔
انسان نے جہاں جہاں بستیاں بسائیں یہ دونوں اس کےتعاقب میں وہاں وہاں پہنچے،
دینے والے کو دینے کا سلیقہ ہونا چاہیے اور مانگنے والے کو مانگنے کا طریقہ آنا چاہیے ۔
ایک صاحب گھر آئے تو بیوی سے کہنے لگے ،
آج ایک شخص نے اتنے خوبصورت انداز میں مجھ سے مانگا کہ دل گداز ہوگیا اور میں نے اسے گھڑی ، لیپ ٹاپ اور بٹوا نکال کر دے دیا ۔بیوی نے تجسس سے پوچھا کیا کہا اس نے؟ وہ صاحب بولے گلی میں روشنی کچھ کم تھی ، وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا ،
"بابو جی آپ کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے ، بدن پہ خوبصورت سوٹ ہے سنہری چمکدار گھڑی ہے ،ہاتھ میں کمپیوٹر کا بیگ ہے ،بٹوے میں کرنسی بھی ہو گی اور ایک میں ہوں جس کے پاس اس بھری دنیا میں سوائے اس پستول اور اس میں چھ گولیوں کے اور کچھ بھی نہیں” ۔
مانگنے والا کبھی مذہب کا دامن تھام کر آیا تو کبھی ثقافت اور انسانیت کی انگلی پکڑ کر ۔دینے والے کا دل ایسا پسیجا کہ برا بھلا بھی کہہ رہا ہے اور دئیے بھی چلا جا رہا ہے ۔
اردو ادب تو کھلم کھلا فقیروں کی حمایت پہ اترآیا ۔
کسی نے کہا
"تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی "
کوئی فقیروں کا بھیس بدل کر تماشائے اہل کرم دیکھنے نکل کھڑا ہوا ۔
کوئی فقیر رہگزر بن کر پوچھنے لگا
” رستہ کبھی روکا تیرا، دامن کبھی تھاما تیرا "
کچھ نےتو یہاں تک کہہ دیا
"میں تیرے در کا بھکاری ، تو میرے در کا فقیر
آدمی اس دور میں خوددار ہو سکتا نہیں "
پھر یہ معاملہ فرد سے گروہ اور چل کر معاشرے سے قوم تک جا پہنچا ۔
کسی بھکاری کا قول زریں ہےکہ ضمیر ،لاج ،عزت ،ذلت ،پھٹکا ر بس چند دن تک پیچھا کرتے ہیں پھر تو فخر کا احساس جاگنے لگتا ہے کہ میں کتنا عقلمند ہوں اور بھیک دینے والا کتنا بےوقوف۔میری اداکاری میں جان ہے اور یہ بھیک نہیں تماشائی میری داد پیسوں کی شکل میں دے رہا ہے۔
اب قومی سطح پر یہ سلسلہ کب شروع ہوا کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا لیکن کاغذوں کے حافظے میں یہ بات محفوظ ہے کہ سن انیس سو بہتر تک ڈالر چار روپے ستر پیسے کا تھا ۔
"زمانے بھر میں رسوا ہوں مگر اے وائے نادانی
سمجھتا ہوں کہ میرا راز میرے رازداں تک ہے”
جیسے ہر شخص کا کوئی نہ کوئی ذریعہ آمدن ہے ایسا ملکوں کا بھی ہوتا ہے ۔ اپنے ملک کا بتاتے شرم آتی ہے ۔
اب آئے دن ہم کشکول کو توڑتے رہتے ہیں کہ ضرورت کے اعتبار سے ہر کشکول چھوٹا پڑتا جا رہا ہے ۔
اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ ایسی خبریں بھی پہنچیں کہ کسی اسلامی ملک نے کشکول میں ایک بہت بڑی رقم ڈال دی ۔
سبھی دانشوروں نے دبے دبے لفظوں میں کہا کہ ہماری حمیت کو کیا ہوا ۔ جیسے پولیس والے جیب میں پیسے رکھتے ہوئے کہہ رہے ہوں ، بھلا اس کی کیا ضرورت تھی؟
دوستوں میں چندے پہ بات چلی تو ہم بھی دانشوری پہ اتر آئے اور الفاظ کا سنہری غبارہ پھلایا کہ
"چندے اور بھیک کی خوبی یہ ہے کہ کوئی واپسی کا تقاضا نہیں کرتا "
ابھی ہماری دانشوری کے غبارے پہ لکھی عبارت کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ایک بچی نے اس غبارے کی سب ہوا یہ کہہ کر نکال دی کہ
"آج کل بھیک اور چندہ بھی بغیر لکھت پڑھت کے نہیں ہونا چاہیئے ” ابھی حال ہی میں ایک برادر اسلامی ملک نے دی ہوئی بھیک بھی بمعہ سود واپس مانگ لی ہے "
بھکاری کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn