جس طرح نیوزی لینڈ کی حکومت ، عوام اور معاشرے نے مساجد میں مسلمانوں کے قتل پر رد عمل کیا وہ واقعی قابلِ تحسین ہے۔ قاتل کا تعلق ایک اکثریتی عیسائی مذہب و ملک سے ہے اور مقتول مسلمان۔ سیاہ لباس میں ملبوس اور سر پر دوپٹہ اوڑھے ایک عورت مساجد اور غم زدہ خاندانوں کے پاس جاکر انہیں گلے لگا کر تعزیت کرتی ہے۔نمازی اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو ان کے پیچھے قطار بنائے عیسائی اور یہودی ان کی رضا کارانہ حفاظت اور اظہار یکجہتی کے لئے کھڑے ہوتے نظر آتے ہیں۔ تعزیت کے لئے مساجد اور کمیونٹی سینٹرز کے باہر ہر رنگ و نسل کے لوگ قطار بنائے کھڑے ہوتے ہیں جن کے چہروں پر چھائی اداسی اور غم واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
عورتیں ، بوڑھے، بچے اور جوان سبھی روتے ہوئے نظر آتے ہیں، عیسائی مرد و زن مسلم شہدا کہ یاد میں شمعیں جلاتے نظر آتے ہیں۔ جائے حادثہ پر پھول رکھے جاتے ہیں، زمین پر رنگ برنگے کلرز کے ساتھ تعزیتی پینٹنگ کی جاتی ہے، شام ڈھلتے ہی چراغ روشن ہوتے ہیں، مرنے والوں کی یاد میں خاموشی ہوتی ہے۔ پھولوں اور چراغوں کے ذریعے محبت اور امن کا پیغام دیا جاتا ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اشکبار ہوتی ہیں۔ ایک تاریخی لمحہ جب پورے نیوزی لینڈ میں اللہ اکبر کی گونج، جمعہ کی اذان ٹی وی اور ریڈیو پر براہ راست نشر، ہیگلے پارک میں نماز جمعہ کا عظیم الشان اجتماع، وزیراعظم جیسنڈآرڈن اپنے تعزیتی خطاب میں قرآن اور حدیث نبوی ﷺ کا حوالہ دیتی ہے، تقریب میں سیاہ لباس اور دوپٹہ اوڑھ کر شرکت کرتی ہے۔ اسمبلی کی کاروائی کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم اپنی تقریر کا آغاز السلام و علیکم سے کرتی ہیں اور اسلام کو پرامن مذہب قرار دیتے ہوئے اس بھیانک واقعہ میں ملوث مجرمان کو قانون کے مطابق سزا دینے کی یقین دہانی اور مسلمانوں کے دکھ کی تشفی کی کوشش کرتی ہے۔
اُنکی وزیر اعظم قرآنی آیات کا ترجمہ اور احادیث کا ترجمہ سناتی ہے اور مسلمانوں سے صبر کی تلقین کرتی ہے۔ جنکا ایمان، عقیدہ اور دین مختلف ہے اُنکے ہاتھ دعا کے لئے اٹھتے ہیں، وہ لوگ عقیدے کو نہیں بلکہ انسانیت کو اہمیت دیتے ہیں۔ اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ ا نسانیت ہی دراصل سب سے بڑا عقیدہ اور مذہب ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور عوام کا رویہ دیکھیں اور سوچیں کہ ہم بحیثیت مسلمان کہاں کھڑے ہیں۔ہم مسلمان ہیں اور اسلام امن ، سلامتی ، محبت کا دین ہے۔ جو کچھ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے کیا اور دہشت گردوں کو و اضع پیغام دیا کہ ہم آپ سے نفرت و بیزاری کرتے ہیں ، کیا ہم پاکستان میں یہ سب کچھ کر سکتے ہیں ۔ ؟جس طرح وہاں اسمبلی کے اجلاس کا آغاز تلاوتِ کلا م پاک سے ہوا کیاہم ایسا سوچ بھی سکتے ہیں کہ کسی عیسائی کے مارے جانے پر بائبل پڑھنے کی اجازت دینگے۔
کیا ہمارا کوئی لیڈر امن و سلامتی کا پیغام دینے کے لئے ایسا کچھ کرنے کی ہمت رکھتا ہے جیسے نیوزی لینڈ میں جمعہ کی نماز براہِ راست دکھائی گئی۔ جیسے انکے نیشنل میڈیا نے اذان کو براہَ راست نشر کیا، پاکستان میں ممکن ہے۔؟ کیاہمارے بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں بھی کبھی چرچ، مندر، احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملے کے بعد وہاں پھولوں کی عمارات تعمیر کرسکتے ہیں اور ان کے گرد حفاظتی حصار بنا سکتے ہیں۔ کیا ہم قتل عام کے اگلے ہی دن قاتل گرفتار کر سکتے ہیں اور ملکی قوانین بدل سکتے ہیں، مرنے والوں کو بلا تمیز اپنا بھائی اور شہید کہہ سکتے ہیں۔؟ ہم تو مغرب سے بہت پیچھے ہیں۔جس طرح نیوزی لینڈ کی حکومت اور معاشرے نے مساجد میں مسلمانوں کے قتل پر رد عمل کیا، اسے دیکھتے ہوئے اپنے ملک میں غیر مسلموں کے قتل پر اپنی حکومت اور معاشرے کے ردِ عمل پر شرم آتی ہے۔
احمدیوں کے قتل پر ہم خاموش ہیں پشاور اور راولپنڈی کے جلے ہوئے چرچ اور وہاں بکھری ہوئی لاشیں کسی کو یاد ہی نہیں ۔ گوجرہ ، جوزف کالونی ، یوحنا آباد اور گلشن اقبال میں اللہ اکبر کے نعروں کے بیچ گھروں کی لوٹ مار اور عیسائیوں کا قتل عام فی الحال فراموش یادوں کے البم میں رکھ دیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں تو چرچ اور مندر سمیت غیر مسلموں کو زندہ جلایا جاتا ہے۔ ان کے گھر مسمار کئے جاتے ہیں۔ہم انسانیت کے قاتل بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کو شہید لکھ رہے ہیں۔ صوفی محمد ہمارا ہیرو اور مرد مجاہد ہے۔ بے گناہوں کے سر کاٹ کر انکے سروں کو فٹبال بنا کر کھیلنے والا احسان اللہ احسان ہمارا قومی مہمان ہے۔ کراچی کے پارسی، پشاور کے سکھ، عمر کوٹ کے ہندو، فیصل آباد کے عیسائی ، ربوہ کے احمدی ایک ایک کرکے ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ ہم عیسائیوں کی عورتوں کو زبردستی اٹھاتے، اُنکا زبردستی مذہب تبدیل کروا کر اُن سے نکاح کا ناٹک رچاتے ہیں،
مومنین کو گوارہ نہیں کہ کوئی خوبصورت غیر مسلم دوشیزہ جہنم میں جائے۔ ہندو لڑکیوں کے زبردستی قبول اسلام کے کئی واقعات ہیں۔ ہندو لڑکیوں کو اچانک مسلمان لڑکوں سے محبت ہو جاتی ہے۔ پھر اچانک ایک دن وہ لڑکے ’’ اسلامی تعلیمات‘‘ کے مطابق لڑکیوں کو بھگا لے جاتے ہیں۔ ہفتہ دس دن کی غیبت کے بعد اچانک شادی شدہ جوڑوں کی صورت میں کہیں سے برآمد ہوتے ہیں۔ والدین دہائیاں دیتے ہیں لیکن تھانوں میں انکی سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ چونکہ اب وہ مسلمان ہو چکی ہیں تو نہ ہی قانونی کاروائی ہو سکتی ہے اور نہ ہی مال مسروقہ کی بر آمدگی ممکن ہے۔ تبلیغ اسلام کا انوکھا طریقہ ہے جو مسلمان لڑکوں نے سنبھال رکھا ہے۔ اور اوپر سے مولوی انکے سپورٹر ہیں۔ پتہ نہیں صرف لڑکیاں ہی کیوں مسلمان بنتی ہیں، لڑکوں کو بھی اسلام قبول کرنا چاہیے۔ اور یہ مولوی انہیں اپنا داماد کیوں نہیں بناتے۔!
ابھی کل کی بات ہے۔ ہولی کا تہوار مناتے رینا اور روینہ دو بارہ اور چودہ سال کی بچیوں کو اغواء کیا جاتاہے۔ دو دن بعد اسلام قبول کروایا جاتا ہے، اور ساتھ ہی نکاح پڑھوا دیا جا تا ہے۔ اُنکا باپ سڑک پر انصاف کے لئے پیٹتا پھرتا ہے لیکن اسے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔۔ابھی ہفتہ عشرہ ہی ہوا ہو گا کہ راولپنڈی میں ایک ملاّ بچوں کی ماں عیسائی عورت کو گن پوائینٹ پر اغوا کرتا ہے۔ اسے کئی دنوں تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، پھر اسلام کی قبولیت اور اسکے پہلے خاوند کے ہوتے ہوئے جعلی نکاح دکھایا جاتا ہے اور پھر قانون خاموش ہو جاتا ہے۔ہم تو قاتلوں، دہشت گردوں ، انتہا پسندوں، شرپسندوں ، فتنہ پروروں کو قانون کی تحویل میں دینے کی بجائے اپنی تحویل میں لیتے ہیں جنہیں اب پالنے کے لئے بیاسی کروڑ روپے کا بجٹ درکار ہے۔ہماری طرف تو عشروں سے بغیر تبدیلی کے پڑھائے جانے والے نصاب کا بیشتر حصہ خونریزی ، جنگ و جدل اور دروغ گوئی سے بھرپور ہے۔ سوال کی اجازت نہیں،مکالمے ، غور و فکر اورسوچنے پر پابندی ہے۔ ہمارے ملک میں ایک دس سالہ عیسائی بچہ کہتا ہے کہ اُسکا دل چاہتا ہے کہ وہ مسلمان ہو جائے تاکہ مسلمان ہمسائے اپنے بچوں کو اس کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دیں۔
ہمارا تعلق ایک ایسے تنگ نظر سماج سے ہے کہ جہاں غیر مسلموں کی تعداد کا ۲۳ فیصد سے کم ہو کر ۳ فیصد رہ جانا کوئی انوکھی بات نہیں اور اس بات پر کوئی غور نہیں کرتا کہ وہ یہ ملک کیوں چھوڑ کر جارہے ہیں۔جگہ جگہ لشکر بنے ہوئے ہیں۔ کسی کو مذہب کے نام پر، کسی کو زبان اور علاقے کے نام پر، کسی کو قومیت کے نام پر قتل کر رہے ہیں۔ اپنے ملکوں کی طرح یورپ میں بھی گند کیا ہو ا ہے۔ بندر کیطرح حلیے بنائے پھرتے ہیں اور وہاں بھی زبردستی اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ہمارا مذہبی طبقہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی بہت تعریف کر رہا ہے لیکن وہی طبقہ اپنے ملک میں بلاولبھٹو زرداری کے مندر میں قدم رکھنے پر سیخ پا ہوتا ہے۔ نواز شریف احمدیوں کو بھائی کہتے ہیں تو انہیں رسوا کیا جاتا ہے۔ملالہ کو ہولی منانے پر لعنت بھیجتے ہیں، میری کرسمس کہنے والوں کو تجدید دین کی دعوت دی جاتی ہے۔ کیک کاٹنے کو غیر اسلامی قرار دیکر لوگوں کے گلے کاٹ دئیے جاتے ہیں۔ عاطف میاں کی تقرری پر کفر کے فتوے لگتے ہیں ، حکومت اور ریاست بے بس ہوجاتی ہے۔
ہمارے ہاں ایک سرکاری محافظ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کو دن دیہاڑے گولیوں سے بھون کر خود کو ہیرو بنا کر گرفتار ہو جاتا ہے۔ اس کی پیشی کے موقع پر گل پاشی کی جاتی ہے۔ ایک قاتل کی پھانسی شرانگیزی لاتی ہے مگر اس کا ہیرو کا اسٹیٹس برقرار رہتا ہے۔قاتل کے معصوم بچے کی بریں واشنگ جلاد ملاؤں کے ہاتھوں شروع ہوتی ہے۔ بچے کو کیش کروا کر مزار کا سنگ بنیاد پڑتا ہے۔ جہاں نہ صرف ملک بھر سے لوگ زیارت کے لئے آتے بلکہ وہاں نذرانے بھی دیتے ہیں۔ مزار کے مبارک ہونے کی دلیل اور خواب میں بزرگان دین کی جانب سے ’’جنت کی بشارت ‘‘ کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ایک خطرناک فتنہ اس شجر اشتعال سے جنم لیتا ہے۔ گستاخ گستاخ کرتے نوجوان ہر وقت ہاتھ میں سزائے موت کی مہر لئے دندناتے پھرتے ہیں۔ نوجوان نسل کو شدت پسند جنونی بنایا جاتا ہے جو دوسرے کسی کی طرز زندگی کو ماننے اور برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ہمارا ملا مغرب کی ترقی کا راز سمجھنے کی بجائے اس پر کفر کے فتوے کو دین اسلام کی بقاء سمجھتا ہے ۔حسرت خلد اور آرزو حور میں بے گناہوں کو مارنے کی تبلیغ کرتے ہیں ۔ اُن کو مشرق میں افغانستان، بنگلہ دیش، سعودی عرب، امارات، قطر میں سے کسی بھی ملک میں شہریت نہیں ملتی ۔ جب اسکی دوڑ لگتی ہے تو وہ کنییڈا، آسٹریلیا، ، یورپ، امریکہ اور انگلینڈ میں پناہ لیتا ہے۔ وہ کبھی بھی ملت اسلامیہ کا رخ نہیں کرتا لیکن جب کبھی بھی موقع ملے اُسکے تیروں اور توپوں کا رخ مغرب کی جانب ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ملاّاس سے انسانیت سیکھنے کی بجائے اسے مسلمان ہونیکی دعوت دیتے ہیں،چونکہ ہمیں اسکی آخرت کی فکر ہے۔
ہمارے ہاں ایک دائرے سے باہر سب واجب القتل اور حور اور جنت سے محروم ہیں۔ سور بولنا چالیس دن زبان کو ناپاک کر دے گا مگر جھوٹ ، رشوت ، بدگمانی، قبضہ اور سود سب جائز ہے۔ ہمارے ہاں مذہب فروشی سے زیادہ منافع بخش کوئی اور کام آج تک متعارف نہیں ہو سکا۔ مذہب ایک ایسی اے ٹی ایم مشین ہے جس میں جوان جنگجو کو ڈالا جاتا ہے تو وہ ہیرو بن کر نکلتا ہے اور اس ہیرو کے نام پرپھر ملاّ کاروبار منافع پکڑتا ہے۔ فیس بک، ٹویٹر، اور گوگل پر لفظ ’’ خطیب ‘‘ ڈال کر سرچ کریں تو آپکا سر چکرا جائیگا۔جس نے ایک استاد کا قتل کیا اُسے غازی کا خطاب مل چکا ہے۔ اُسکی عظمت، جرات، بہادری ، شجاعت کو سلام پیش کیے جارہے ہیں۔ملاّ کہہ رہے ہیں کہ غازیان کی فہرست میں ایک اور درخشندہ ستارے نے اپنی جگہ بنا لی۔ فتوے دئیے جارہے ہیں کہ مغربی کلچر یہاں لانے والوں کا ایسا ہی انجام ہو گا۔قاتلوں کو گلوریفائی کرنیکا عمل جاری ہے لیکن ریاست مدہوش ہے اور قانون خاموش ہے ۔ مغرب کا قاتل ’’ دہشتگرد‘‘ بن گیا ہے مگر ہمارا قاتل ایک بار پھر ’’ غازی ‘ ‘ بن چکا ہے۔ تو پھر میں کیوں نہ کہوں کہ نیوزی لینڈ میں جو کچھ ہوا ہمیں اس پر خوش ہونا چاہیے کہ ہمارا بیانیہ مضبوط ہوا۔ ہم بھی تو اسی سوچ کے پروردہ ہیں ۔ بغلیں بجائیے کہ ہماری سوچ ، ہمارا فلسفہ، ہماری اپروچ، ہمارا رویہ، ہماری فکر کرسی نشین ہوئی۔۔!! مبارک ہو۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn