Qalamkar Website Header Image

نفرتوں کے بیوپاری

محبتوں کے خریدار کم ہوتے ہیں لیکن نفرتیں بہت جلد بک جاتی ہیں۔ انسان کی اس نفسیات کو دیکھ کر بہت سے بیوپاری نفرتوں کے بازار میں اپنا مال بیچتے ہیں تاکہ ان کی دکان کو چکا چوند ترقی نصیب ہو۔

سفید قوم پرستی ان نفرتوں کی اجناس میں سے ایک ہے۔ سفید چمڑی کی برتری کا دعوی ویسے تو نیا نہیں ہے، لیکن جدید دور میں اس میں نفرت اور دہشت کے عناصر شامل ہو گئے ہیں۔ تمام بنی نوع انسان کی اصل ایک ہے لیکن کچھ جغرافیائی مناطق میں ہزاروں صدیوں سے رہنے کی وجہ سے انسانوں کی چمڑیوں کے رنگ مختلف ہیں، اور اس بنیاد پر کچھ لوگ نسلی برتری کے قائل ہوتے ہیں۔

امریکہ کے موجودہ صدر ٹرمپ نفرتوں کے ان بیوپاریوں میں سے ایک ہیں۔ ٹرمپ جیسے افراد میں چونکہ کوئی قابل ذکر صلاحیت نہیں ہوتی، اس لئے اپنے ملک کی اکثریت کو ساتھ ملانے کے لئے ان کی برتری اور اقلیتوں کی کمتری کا دعوی کرتے ہیں۔ نفرتوں کے یہ بیوپاری اس حقیقت سے چشم پوشی کرتے ہیں کہ اس طرح نفرتوں کو بیچ کر معاشرے کو نقصان ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے پاکستانیوں سے بہتر کوئی واقف نہیں ہوگا۔

سن انیس سو اسّی اور نوّے کی دہائی میں ہمارے ملک میں بھی نفرتوں کا ڈنکا بجتا تھا، نفرتوں کے بیوپاری مختلف اجناس بیچتے تھے جن میں سرفہرست مذہبی و مسلکی نفرت تھی۔ تقریبا تین عشروں تک پاکستان میں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی، گو کہ اس کی رمق اب بھی باقی ہے۔ یہ ایک الگ افسوسناک المیہ ہے کہ ان نفرتوں کے بیوپاریوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  سرد جنگ سے نکلنے کی واحد صورت

ہمارے خطّے میں نفرتوں کی تجارت میں مغرب کا ایک بڑا کردار رہا ہے۔ ابتدا میں سوویت یونین کے مقابلے کے لئے نفرتوں کو پروان چڑھایا گیا، اس کے بعد یہ لت مختلف قوّتوں کو لگ گئی اور اس کا دائرہ وسیع ہو کر مشرق وسطی کے ممالک تک پھیل گیا۔ اس میں کچھ مسلمان ریاستوں کا بھی کردار ہے جو اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لئے نفرتوں کے وسیع تر پھیلاؤ کے لئے پیسہ جھونکتے رہے۔

ہم بخوبی واقف ہیں کہ نفرت کے یہ بیوپاری ہمارے لئے کبھی مفید نہیں ہو سکتے۔ یہ بات بھارت کو بھی سمجھنی چاھئے جو بوجوہ آجکل نفرتوں کے بیوپاریوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک بیوپار بنام نریندر مودی نفرتیں بیچ کر اقتدار کے ایوانوں میں آنے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت سرکاری سطح پر وہاں نفرتوں کا دور دورہ ہے تاکہ اس کی آڑ میں محتلف فوائد حاصل کیے جا سکیں۔

دوسری طرف مغرب جس نے ہمارے ہاں نفرتوں کے پھیلاؤ میں کردار ادا کیا تھا، ردّ عمل ظاہر ہونے کے بعد اسلام کے خلاف نفرت کا پرچار شروع کر دیا۔ مغرب کے اپنے گماشتے کبھی داعش، کبھی بوکو حرام اور کبھی مختلف مذہبی تنظیموں کے نام پر ظلم و بربریت کا مظاہرہ کرتے، اور پھر جب مغربی عوام تک یہ باتیں پہنچتیں تو ان کو اسلام سے نفرت دلا کر ڈبل گیم کھیلا جاتا رہا۔ اب نفرتوں کو اس قدر اشتعال دیا جا چکا ہے کہ کچھ سفید قوم پرست اسلحہ اٹھا کر دہشتگردی پر آمادہ نظر آتے ہیں، سانحۂ نیوزی لینڈ اسی کی ایک کڑی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  مبارک مبارک مبارک | شاہانہ جاوید

مستقبل میں اس قسم کے دیگر واقعات کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اگر آج مغرب کے اربابان اختیار نے نفرتوں کا بیوپار ترک نہ کیا تو یہ قوم پرستی ان کے لئے شدید نقصاندہ ثابت ہوگی۔ اگر مغرب محفوظ نہ رہے تو دنیا بھر کا سرمایہ جو ان ممالک میں اس لئے انویسٹ کیا جاتا ہے کیونکہ یہ محفوظ ہیں، سب نکل جائے گا۔ اگر ہوش کے ناخن لیے جائیں اور نفرتوں کی جگہ محبتوں کو پھیلانے کی حوصلہ افزائی کی جائے تو انسانیت کے تمام تر مسائل حل ہو جائیں گے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس