پاکستان میں کرتار پور کوریڈور کی سنگ بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ستر سال سے زائد مخاصمت کی فضا کو ختم کرنے کے لئے اس طرح کے اقدام بہت ضروری ہیں۔ جس قدر پاکستان اور بھارت لسانی و نسلی لحاظ سے قریب ہیں اس قدر یہ دونوں ممالک کسی سے قریب نہیں ہیں، دونوں مشترکہ تاریخ کے حامل بھی ہیں۔
دھرم کی بنیاد پر ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور جو سرخ لکیر کھینچ دی گئی وہ اب تک ختم نہیں ہو سکی تھی۔ دونوں ممالک کی امن پسند عوام دوستی، امن اور شانتی چاہتی ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ لاکھوں ایسے خاندان ہیں جو رہتے بارڈر کی دوسری طرف ہیں لیکن ان کی دل کی دھڑکنیں اس پار ہیں۔ یہ وہ خاندان ہیں جو بٹوارے کے بعد اپنے شہر اور علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ خون کی لکیر کھینچنے والوں نے انسانی جذبات کا خیال نہ رکھا اور محض کاغذ کے چند ٹکڑوں پر لائنیں لگا دیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کلدیب نیر جیسے افراد اپنی راکھ گنگا کے بجائے لاہور میں دریائے راوی میں بہانے کی وصیت کرتے ہیں، اور شاید کتنے پاکستانیوں کی آرزو ہوگی کہ وہ اپنے آبائی قصبے امرتسر، جالندھر، ہوشیار پور، پٹیالہ، لدھیانہ، بٹالہ اور گورداسپور میں دفن ہوں۔ کتنے کلدیپ نیر ایسے ہوں گے جو خواب آنکھوں میں لئے اس دنیا سے چلے گئے۔
کرتار پور کوریڈور کی سنگ بنیاد تاریخ کا وہ اہم موڑ ہے جو کروڑوں انسانوں کی حسرتوں کو کم کرنے کا باعث بنے گی۔ جس طرح سے پنجاب کو تقسیم کیا گيا ویسے ہی بلتستان و لداخ بھی منقسم ہیں۔
بلتستان کا علاقہ جو پاکستان میں واقع ہے، بارڈر کی دوسری طرف بلتستان کے ایسے علاقے ہیں جو ہمیشہ بلتستان کا حصّہ رہے لیکن تقسیم نے اپنی سفاکیت یہاں بھی دکھائی۔ کھرمنگ کی طرف بارڈر کے دونوں سائیڈ ایک زبان بولی جاتی ہے، پاکستان کی طرف اس زبان کو بلتی کہتے ہیں اور دوسری طرف اس کو "پوریگ” کہتے ہیں۔ فرق لہجے کا ہے لیکن زبان ایک ہے۔ یہ تقسیم بھی محض علامتی ہے ورنہ پاکستان کی طرف پوریگ لہجے میں بات کرنے والے الڈینگ، برولمو، بلا رگو اور ژیژے تھنگ کے علاقے ہیں تو دوسری طرف کارگل کے بہت سے علاقوں میں بلتی لہجے میں بات کی جاتی ہے۔ یہ فرق اتنا ہی ہے جتنا لاہوری پنجابی اور لائلپوری پنجابی میں ہے۔
یہ علاقے ایک دوسرے سے تب جدا ہوئے جب 1948 میں گلگت بلتستان کی عوام نے کشمیر کے ڈوگرہ راج کے خلاف مسلح بغاوت کی، انہوں نے بلتستان کا بڑا علاقہ آزاد کروایا اور کارگل کو فتح کرتے ہوئے بدھ بلتیوں کے علاقے زانسکار میں بھی مضبوط قدم جمائے، بعد میں سیز فائر کی وجہ سے ان مجاہدین کو واپس آنا پڑا لیکن پاکستان نے حیرت انگیز طور پر کارگل کا علاقہ مکمل خالی کر دیا۔ اس کے باوجود بھی دونوں طرف لوگوں کی آزاد آمد و رفت 1971 کی جنگ تک جاری رہی۔ اس جنگ کے بعد جو شخص جہاں تھا وہیں رہ گیا کیونکہ بارڈر بند کر دیا گیا۔ کوئی بیٹا اپنے ماں باپ سے بچھڑ گیا، کوئی بھائی اپنے بھائی بہنوں سے، اور کوئی میاں اپنی بیوی سے۔ باقی قریبی رشتہ داریوں کی دوریاں اس کے علاوہ ہیں۔ میں آج بھی ایسے خاندانوں کو جانتا ہوں جو جنگ کے زہر کی وجہ سے ایک دوسرے سے بچھڑ چکے ہیں۔
پنجاب تو دھرم کی بنیاد پر تقسیم ہوا تھا، جس کی وجہ سے مغربی پنجاب سے ہندو سکھوں کا مکمل انخلاء ہوا اور مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کا۔ خون کی لکیر نے دونوں کو جدا تو کیا اور لاکھوں خاندان شہر بدر ہوئے، لیکن ایسا نہیں ہوا کہ باپ اور بیٹا یا میاں اور بیوی بارڈر کے آر پار رہ گئے۔ بلتستان کو مسئلہ کشمیر سے نتھی کرنے کی وجہ سے دونوں اطراف کا سفر ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ علاقے کشمیر جیسے خوش قسمت بھی نہیں جہاں دونوں طرف کے کشمیر کو چکوٹھی کے ذریعے جوڑ دیا گيا ہو۔ ان کے درمیان کھرمنگ – کارگل کا جو راستہ قدرتی اور تاریخی طور پر موجود تھا اس کو دونوں ممالک نے خطرناک جنگی محاذ میں بدل دیا ہے۔
کرتار پور کوریڈور کے افتتاح کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ جلد اسکردو و کارگل کوریڈور کو کھولا جائے، اور بارڈر کے دونوں اطراف میں راہداری دی جائے جیسے ایران و پاکستان کے بلوچستان میں یہ نظام رائج ہے۔ اس کے بعد دونوں اطراف کے لوگ بہت آرام سے ویزا کے بغیر سفر کر سکیں گے۔ بلتستان ڈویژن کے لوگ فقط ضلع کارگل میں سفر کر سکیں گے اور ضلع کارگل کے لوگ فقط بلتستان ڈویژن میں۔ اس سے نہ صرف منقسم خاندان اکٹھے ہو سکیں گے بلکہ ایک قوم کے افراد جو نسلی، مذہبی اور لسانی لحاظ سے یکسانیت رکھتے ہیں، ایک ہو سکیں گے۔
میری گزارش ہے کہ تمام امن پسند افراد خصوصا بلتستان و کارگل کے باسی اس پیغام کو جتنا ہو سکے پھیلائیں اور اپنی اپنی حکومتوں پر زور ڈالیں تاکہ جلد یہ قدم اٹھایا جا سکے۔ اس سلسلے میں اپنے اپنے حلقوں میں آگہی پھیلائیں تاکہ خاطر خواہ نتائج حاصل ہو سکیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn