Qalamkar Website Header Image

عاطف میاں، مذہبی اور سیاسی حلقوں کی تنقید

جیسا کہ آپ لوگ یہ جانتے ہیں کہ عاطف میاں کی اقتصادی مشاورتی کونسل میں شمولیت پر مختلف مذہبی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے شدید ردّعمل سامنے آیا، جس کے بعد تحریک انصاف تنقید برداشت نہ کر سکی اور عاطف میاں کو کونسل سے ہٹا دیا گیا۔ اگر حکومت مزاحمت کر لیتی اور تنقید کو نظر انداز کر دیتی تو شاید نئی تاریخ رقم ہوتی، لیکن اس معاملے میں یوٹرن لیا گیا، نتیجہ یہ ہوا کہ دو مزید عالمی شہرت یافتہ معیشت دانوں ڈاکٹر عاصم اعجاز خواجہ ( ہارورڈ کینیڈی اسکول میں انٹرنیشنل فائنانس اینڈ ڈویلپمنٹ کے پروفیسر) اور ڈاکٹر عمران رسول (یونیورسٹی کالج لندن میں معاشیات کے پروفیسر) نے بھی استعفی دے دیا ہے۔

عاطف میاں کی کتاب “ہاؤس آف ڈیبٹ” معاشی علوم میں تحقیق کا ایسا شاہکار ہے جسے کئی مبصرین نے اسلامی اصولوں سے قریب تر پایا ہے۔ اسلامی بینکاری کے مجوزین و ناقدین دونوں کو یہ کتاب پڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ عاطف میاں نے “ہوم فائنانسنگ” کا جو بدل تجویز کیا ہے وہ حقیقی مالیت کی سرمایہ کاری اور تقسیم پر مبنی ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں واقع ‘پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس’ کے وائس چانسلر ڈاکٹر اسد زمان کہتے ہیں کہ عاطف میاں نے اسلامی اصولوں پر مبنی سرمایہ کاری کے لیے ایسا راستہ فراہم کیا ہے اور سودی نظامِ استحصال کا وہ رد کیا ہے جو پچھلے ۱۰۰ سالوں میں کوئی ماہرِ معیشت نہیں کرسکا۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر اسد زمان اس اقتصادی مشاورتی کونسل میں شامل ہیں (مجھے ایک ماہر اسلامی بینکار نے بتایا ہے کہ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے بھی ہے، واللہ اعلم)۔

یہ بھی پڑھئے:  ہمیں اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے چاہئیں؟-انور عباس انور

سن 2016 میں مکّہ مکرمہ میں بین الاقوامی اسلامی بینکاری کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں دنیا بھر کے ماہر مسلمان اسلامی بینکار شریک تھے جن میں سرفہرست عالمی شہرت یافتہ مفتی تقی عثمانی صاحب بھی شامل تھے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کانفرنس میں "کی-نوٹ اسپیکر” کون تھا؟

جی ہاں یہی "عاطف میاں” تھے جن کو ان کے عقیدے کی وجہ سے پاکستان میں راندہ درگاہ کر دیا گیا ہے، لیکن ان کو مکّہ مکرّمہ میں اہم اسلامک اکنامکس و بینکاری کانفرنس میں گفتگو کے لئے بلایا جاتا ہے۔ ہم نجانے کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ کسی شخص کا ذاتی مذہبی عقیدہ کچھ بھی ہو، ہم مختلف علوم و فنون میں اس کی مہارت سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ آپ کا کسی شخص کے عقیدے سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ فنون میں اس کی مہارت سے استفادہ نہ کیا جائے۔ کیا ہمارے ہاں یونیورسٹیوں کے تمام شعبہ جات بالخصوص معاشیات میں ملحدوں، یہودیوں اور عیسائیوں (جو سب کے سب ختمِ نبوت کے منکر ہیں) کی لکھی ہوئی کتابیں، نہیں پڑھائی جاتیں؟

ان کتابوں کے پڑھنے میں کوئی قباحت اس لیے نہیں کیونکہ یہ ایمانیات کی کتب نہیں بلکہ مختلف فنون کی کتابیں ہیں۔ شریعت دوسروں سے معاملات کے مسائل سیکھنے اور ان کی ایجادات و انکشافات سے فائدہ اٹھانے پر پابندی نہیں لگاتی۔ حضرت علی (ع) کا یہ قول مشہور ہے "علم مومن کی میراث ہے، کافر سے بھی ملے لے لینا چاہئے”۔ لہذا شریعت کو اپنی تنگ نظری کے لیے ڈھال نہ بنائیں اور نہ ہی مذہب کو انارکی پھیلانے کے لئے استعمال کریں۔ آخر میں اس ملک کے لئے ڈھیروں دعائیں، بالخصوص اس ملک کی شعوری ارتقاء کے لئے دعاگو ہوں۔

یہ بھی پڑھئے:  فیس بک اور ادبی تنقید

حالیہ بلاگ پوسٹس