موجودہ حکومت سرکاری، نجی اور دینی تعلیمی اداروں کے لیے یکساں قومی نصاب تشکیل دے رہی ہے۔ پہلی سے پانچویں جماعت تک کا نصاب مکمل ہوکر جاری ہوچکا اور اس کے مطابق درسی کتب لکھی جارہی ہیں جبکہ جماعت ششم سے ہشتم تک کے نصاب پر وزارت برائے وفاقی تعلیم کی نگرانی میں کام جاری ہے۔ مختلف تعلیمی اداروں کے نصاب میں عدم یکسانیت تعلیم کے شعبے کو درپیش چند بڑے چیلنجز میں سے ایک اہم چیلنج ہے۔ حکومت کا یکساں نصاب بنانے کا اقدام مجموعی طور پر درست معلوم ہوتا ہے لیکن اب تک جاری ہونے والی نصابی کتب کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ نصاب بناتے ہوئے بعض جگہوں پر بنیادی اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے جو قومی اور ملی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ہے۔ اسی طرح بعض تکنیکی مسائل ہیں جو اس نصاب کے معیار کو زیر سوال لاتے ہیں۔
دین کے لیے حداقل دائرہ کار کے قائل دانشوروں کے بعد اقلیتوں نے بھی نئے نصاب پر اپنے تحفظات پیش کردئیے ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق پر بننے والے ایک رکنی اقلیتی کمیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں اقلیتی اعتراضات کی نشاندہی کی ہے۔ اگلے چند دنوں میں مزید ایسے طبقات سامنے آئیں گے جن کو نئے نصاب پر اعتراضات ہوں گے۔ ان میں مذہبی طبقے بھی شامل ہوں گے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے دسمبر ۱۹۴۷ کو منعقد ہونے والی پہلی تعلیمی کانفرنس میں فرمایا تھا: (ہماری تعلیمی پالیسی اور پروگرام تاریخ اور ثقافت، جدید ضروریات خصوصا سائنٹیفک اور ٹیکنیکل تعلیم سے ہم آہنگ ہو)۔ مذکورہ کانفرنس نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ پاکستان کا نظام تعلیم اسلامی نظریے خصوصا عالمی بھائی چارے، روداری اور عمرانی عدل کی اسلامی تعبیر پر مبنی ہونا چاہئے۔ ۱۹۵۹ میں قائم ہونے والے قومی تعلیمی کمیشن نے قومی ہیروز کو بھی نصاب تعلیم میں شامل کرنے کی سفارش دی تھی۔
مملکت خداداد میں بننے والی اب تک کی تمام تعلیمی پالیسیوں میں اسلامی نظریے، قومی و ملی اقدار، عالمی بھائی چارے، جدید ضروریات، نئے رجحانات اور قومی یکجہتی جیسے اصولوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے لہذا ان اصولوں کا تعلیمی نصاب میں عکس نظر آنا چاہیے۔ علاوہ ازیں آئین میں جن بنیادی حقوق اور اصولوں کی یقین دہانی کروائی گئی ہے جملہ ریاستی امور بشمول نصاب تعلیم کی تشکیل میں ان کی حفاظت کا خاطر خواہ بندوبست ہونا چاہئے۔ جبکہ نئے تعلیمی نصاب کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو ان اصولوں اور تحفظات کو نظر انداز کیا گیا ہے یا ان کی طرف کم توجہ دی گئی ہے۔
نئے نصاب کے بارے حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ نصاب آفاقی اقدار پر بنیاد کرتا ہے لیکن جب نصاب کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نصاب میں شامل بعض اقدار نہ صرف آفاقی نہیں بلکہ اقدار کے ایک ایسے درجے سے تعلق رکھتی ہیں جن کو اپنا کر قومیں صرف فرمانبردار اور مطیع بن سکتی ہیں۔ قومی غیرت و حمیت اور وقار اور استقلال کے لیے ضروری اقدار کو نئے نصاب سے یکسر نظرانداز کیا گیا ہے۔
نئے قومی نصاب میں اخوت و مساوات، تحمل و بردباری، حیا، عفو و درگذر، خدمتِ خلق ، نظم وضبط، سچائی، ایفائے عہد، رواداری، برداشت اور صبر و تحمل جیسی اقدار کو شامل کیا گیا ہے۔ اتفاق سے یہ ساری ایسی اقدار ہیں جو ایک قوم کو مطیع اور آسانی سے manageable بنانے میں معاون ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں شجاعت، حریت، غیرت و حمیت، بے باکی، خودی، حق گوئی، عدل و انصاف، ہمدردی، صبر اور ایمانداری جیسی سابقہ نصابات میں شامل اقدار کو حذف کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ظلم سے نفرت، ظالم سے برات اور مظلوم سے ہمدردی جیسی آفاقی اقدار سے دانستہ چشم پوشی کی گئی ہے جس کا نقصان نہ صرف یہ ہو گا کہ بچے کی شخصیت مکمل نہیں بنے گی بلکہ کشمیری اور فلسطینی بھائیوں سمیت دنیا کے مظلوموں کی حمایت کا جذبہ آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے سے رخصت ہوتا جائے گا۔
نئے نصاب پر مسلکی رنگ بھی غالب نظر آتا ہے۔ بطور مثال اہل بیت اطہار علیہم السلام کی ذوات مقدسہ کو نئے نصاب میں یکسر طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک مولائے متقیان حضرت علیؑ کے علاوہ اہل بیت اطہارؑ میں سے کسی شخصیت کے بارے کوئی سبق شامل نہیں کیا گیا ۔ چھٹی جماعت سے آٹھویں تک کے اسلامیات کے نصاب میں حضرت امام حسنؑ، حضرت امام حسینؑ اور حضرت فاطمۃ الزہرا ؑ کو شامل کیا گیا لیکن ان کے علاوہ اہل بیت اطہارؑ میں سے کوئی ذات شامل نصابِ نہیں ہے جبکہ اسی نصاب میں خالد بن ولید، عتیبہ بن مسلم اور محمد بن قاسم جیسی کئی شخصیات بطور اسلامی ہیرو شامل ہیں۔
تاریخ اور اسلامیات کے نصاب میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اس کے بعد کے ادوار کے کئی ایک واقعات شامل ہیں لیکن عالم انسانیت کو منقلب کر دینے والے واقعہ کربلا کے بارے کوئی سبق شامل نہیں ہے اور دلچسپ بات یہ کہ جب کسی ایک مضمون کی نصاب کمیٹی میں شامل ایک رکن نے اس طرف توجہ دلائی کہ واقعہ کربلا نے انسانیت پر تاریخ کے ہر دوسرے واقعہ سے زیادہ گہرا اثر چھوڑا ہے لہذا اسے ضرور شامل نصاب ہونا چاہئے تاکہ جہاں اس واقعہ سے جڑی شخصیات اور علامات سے عقیدت و احترام معاشرے میں باقی رہے وہیں واقعہ کربلا میں موجود درس و عبرت سے بچوں کو روشناس کروایا جاسکے تو نصاب کمیٹی کے ایک سرکاری رکن نے کہا نہیں نہیں ہم واقعہ کربلا پڑھا کر بچوں کو خون ریزی اور قتل و کشتار نہیں پڑھانا چاہتے۔
ہمارا خیال ہے نئے نصاب تعلیم کو نافذ کرنے سے پہلے اس کا باریک بینی سے جائزہ لیا جانا اور اسے بہتر بنایا جانا چاہئے۔ اقلیتوں سمیت تمام طبقات کے خدشات کو دور کیا جانا چاہئے۔ مثلا اقلیتوں کو جو خدشات ہیں کہ لازمی مضامین میں اسلامی مواد شامل ہے اور لازمی مضامین غیر مسلم ہر بچے کو بھی پڑھنا ہوتے ہیں لہذا زبردستی دیگر مذاہب کی تعلیم سے تحفظ کے ان کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ دوسری طرف آئین پاکستان اسلامی نظریہ حیات، اسلامی ثقافت اور اسلامی اصولوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے لہذا یہ بھی ایک مسلمان بچے کا آئینی حق ہے کہ وہ اردو ادب کو اپنے تصورات اور ثقافت کی تحصیل کے لیے استعمال کرے یا تاریخ کے مضمون میں اسلامی تاریخ پڑھے یا سائنس کے مضمون میں جہاں تعارفی ابواب میں دنیا کے تمام مکاتب فکر کے تصور کائنات پڑھائے جا رہے ہیں وہیں اسے اسلامی تصور کائنات بھی پڑھایا جائے یا جہاں سائنس کے مضمون میں مادے کی تخلیق سے مادے کی تسخیر اور پھر اس کے استعمال تک ہر مکتب فکر کی آراء پڑھائی جارہی ہیں وہاں اسے مادے کی تخلیق، تسخیر اور استعمال بارے اسلامی تعلیمات جاننے سے بھی منع نہ کیا جائے۔ جبکہ دلچسپ امر یہ ہے کہ جنرل سائنس کے مضمون کے سرنامے میں بتایا گیا ہے کہ جنرل سائنس کا مضمون فری آف ریلیجن ہوگا۔ یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ۷۳ کے آئین کی موجودگی میں نصاب تعلیم سے دین کیسے نکالا جاسکتا ہے۔
شہریوں کے مختلف طبقات کے حقوق میں توازن قائم کرنا اور کسی کی حق تلفی نہ ہونے دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ ان کے آئینی حق کی حفاظت کے لیے اقلیتوں کو اپنا علیحدہ نظام تعلیم بنانے کی اجازت دے اور ان کے ساتھ تعاون کرے یا اسی نظام تعلیم اور خصوصا نصاب تعلیم کو مشترک اور مخصوص ابواب میں تقسیم کریں۔ مشترک ابواب سب بچے پڑھیں جبکہ مخصوص ابواب مخصوص بچے اپنے اپنے مذہب و مسلک کے مطابق پڑھیں۔ اس کی ایک مثال سابقہ نصابات میں بھی ملتی ہے کہ جب شیعہ مکتب فکر کے بچوں کے لیے اسی اسلامیات میں چند ابواب مخصوص کر دئے جاتے تھے جہاں ان کو ان کے عقائد اور تاریخ کے بارے پڑھایا جاتا تھا۔ مشترک ابواب سب بچے جبکہ مخصوص ابواب صرف مخصوص بچے پڑھتے تھے۔
نئے نصاب میں تکنیکی اعتبار سے بھی کئی مسائل ہیں جو بچوں کی نشوونما کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے یا نصاب کی افادیت کو کم کرسکتے ہیں۔ عمل درآمد کے مسائل اس کے علاوہ ہیں۔
یہ سب مسائل قابل حل ہیں اور انہیں مناسب ترین اور بہترین انداز میں حل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب حکومت ان امور کے بارے سنجیدہ رویہ دکھائے اور نصاب کی کمیٹیوں اور کونسلز سے ایسے افراد کو نکالے جن کی سوچ اور فکر پر مسلکی و مذہبی تعصب کا غلبہ ہے، جن کے نزدیک ایک کامیاب مسلمان کا تصور صرف اپنی فقہ اور مسلک کے مفتی تک محدود ہے یا ایسے افراد جن کے اذہان پر غیر ملکی غلامی کا تصور غالب ہے اور وہ قوم کو صرف اپنے آقاوں کا مطیع محض یا اغیار کا مقلد دیکھنا چاہتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn