عالمِ اسلام میں رمضان کے روزے رکھے جا رہے ہیں۔ اور تمام مسلمان اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ فائدے اٹھا رہے ہیں۔ مسجدوں کی رونقیں بحال ہو چکی ہیں۔ کچھ مساجد میں تراویح کا انتظام کیا گیا ہے اور آخری عشرے میں اعتکاف کا بھی انتظام کیا جائے گا۔
ہمارے ملک پاکستان کی خاص بات کی جائے تو یہاں رمضان کا ایک خاص رسم و رواج ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے ہاں روزہ افطار کرتے ہیں اور یہ بات عام ہے۔ اس کے علاوہ گھروں میں خصوصی دعائیہ تقریبات کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں جس چیز کی کمی خاص طور پر رمضان میں محسوس کی جاتی ہے، وہ ہے بجلی۔ یہ بجلی شروع سے ہی بہت نایاب ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ نایاب تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ بلکہ کچھ ایسے بھی دیہات ہیں جہاں بجلی کو کوئی جانتا ہی نہیں۔ بجلی کے نہ ہونے کی وجہ سے رمضان میں کافی منفی اثرات نمایاں ہوتے نظر آرہے ہیں۔
الحمداللہ ہمارا ملک ایٹمی صلاحیت رکھتا ہے اور اتنے وسائل ہیں کہ اپنی خود کی بجلی کئی صدیوں تک بنا سکتا ہے۔ مگر بجلی نہ ہونے کا سبب کیا ہے؟ کیا واقعی ہمارے پاس ایسے وسائل ہیں بھی یا نہیں؟ یا پھر بجلی کے پیچھے بھی سیاست کی جا رہی ہے؟
رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے کافی دعوے اور وعدے کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم کردیا جائے گا۔ سحری اور افطاری کے اوقات لوڈشیڈنگ نہیں کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ مگر وہ وعدے ہی کیا جو وفا ہو جائیں۔ لگتا ہے ہمارے ملک میں لوگوں کے ساتھ ساتھ بجلی کا بھی روزہ ہوتا ہے اور آرام کے واسطے اکثر غائب رہتی ہے۔ سحری اور افطاری کے وقت خصوصاَ ایسا لگتا ہے کہ واپڈا اور کے الیکٹرک کے لیے سحری اور افطاری کا انتظام بھی اسی بجلی کو کرنا ہوتا ہے تبھی غائب رہتی ہے۔
چند لوگوں کی خواہشات کے مطابق لوگوں کو اس مصیبت میں ڈالا جا رہا ہے کہ عوام بجلی گیس پانی کے مسائل میں الجھی رہے اور وہ اپنے ناپاک عزائم پورے کرتے رہیں۔ رمضان کی خصوصیات کو سبوتاژ کردیا جاتا ہے۔ اور جیسا کہ روزے گرمی کے ہیں اور سونے پر سہاگہ بجلی بھی نہ ہو تو انسان کے برداشت کرنے کی صلاحیت کمزور پڑجاتی ہے اور اس کے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں۔
بجلی کی عدم دستیابی کا حل نکالا جائے اور ہر شہری کو بجلی فراہم کی جائے۔ حکومتِ پاکستان جہاں کروڑوں اور اربوں رپے سڑکوں پر لگا رہی ہے ان سے گزارش ہے کہ کچھ بجلی کا حل بھی نکالیں۔ ہر بار جوشِ خطابت میں کبھی چھ مہینے تو کبھی نو مہینے کا وقت دیتے ہیں۔ ایسے جوشیلے خطاب سن 1984 سے دیئے جارہے ہیں۔ اس سال نہیں تو اگلے سال ماہِ رمضان تک اس کا مستقل حل نکالا جائے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn