Qalamkar Website Header Image

بجلی کے روزے (حاشیے) | سید حسن

عالمِ اسلام میں رمضان کے روزے رکھے جا رہے ہیں۔ اور تمام مسلمان اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ فائدے اٹھا رہے ہیں۔ مسجدوں کی رونقیں بحال ہو چکی ہیں۔ کچھ مساجد میں تراویح کا انتظام کیا گیا ہے اور آخری عشرے میں اعتکاف کا بھی انتظام کیا جائے گا۔
ہمارے ملک پاکستان کی خاص بات کی جائے تو یہاں رمضان کا ایک خاص رسم و رواج ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے ہاں روزہ افطار کرتے ہیں اور یہ بات عام ہے۔ اس کے علاوہ گھروں میں خصوصی دعائیہ تقریبات کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں جس چیز کی کمی خاص طور پر رمضان میں محسوس کی جاتی ہے، وہ ہے بجلی۔ یہ بجلی شروع سے ہی بہت نایاب ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ نایاب تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ بلکہ کچھ ایسے بھی دیہات ہیں جہاں بجلی کو کوئی جانتا ہی نہیں۔ بجلی کے نہ ہونے کی وجہ سے رمضان میں کافی منفی اثرات نمایاں ہوتے نظر آرہے ہیں۔

الحمداللہ ہمارا ملک ایٹمی صلاحیت رکھتا ہے اور اتنے وسائل ہیں کہ اپنی خود کی بجلی کئی صدیوں تک بنا سکتا ہے۔ مگر بجلی نہ ہونے کا سبب کیا ہے؟ کیا واقعی ہمارے پاس ایسے وسائل ہیں بھی یا نہیں؟ یا پھر بجلی کے پیچھے بھی سیاست کی جا رہی ہے؟
رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے کافی دعوے اور وعدے کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم کردیا جائے گا۔ سحری اور افطاری کے اوقات لوڈشیڈنگ نہیں کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ مگر وہ وعدے ہی کیا جو وفا ہو جائیں۔ لگتا ہے ہمارے ملک میں لوگوں کے ساتھ ساتھ بجلی کا بھی روزہ ہوتا ہے اور آرام کے واسطے اکثر غائب رہتی ہے۔ سحری اور افطاری کے وقت خصوصاَ ایسا لگتا ہے کہ واپڈا اور کے الیکٹرک کے لیے سحری اور افطاری کا انتظام بھی اسی بجلی کو کرنا ہوتا ہے تبھی غائب رہتی ہے۔
چند لوگوں کی خواہشات کے مطابق لوگوں کو اس مصیبت میں ڈالا جا رہا ہے کہ عوام بجلی گیس پانی کے مسائل میں الجھی رہے اور وہ اپنے ناپاک عزائم پورے کرتے رہیں۔ رمضان کی خصوصیات کو سبوتاژ کردیا جاتا ہے۔ اور جیسا کہ روزے گرمی کے ہیں اور سونے پر سہاگہ بجلی بھی نہ ہو تو انسان کے برداشت کرنے کی صلاحیت کمزور پڑجاتی ہے اور اس کے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں۔
بجلی کی عدم دستیابی کا حل نکالا جائے اور ہر شہری کو بجلی فراہم کی جائے۔ حکومتِ پاکستان جہاں کروڑوں اور اربوں رپے سڑکوں پر لگا رہی ہے ان سے گزارش ہے کہ کچھ بجلی کا حل بھی نکالیں۔ ہر بار جوشِ خطابت میں کبھی چھ مہینے تو کبھی نو مہینے کا وقت دیتے ہیں۔ ایسے جوشیلے خطاب سن 1984 سے دیئے جارہے ہیں۔ اس سال نہیں تو اگلے سال ماہِ رمضان تک اس کا مستقل حل نکالا جائے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

منٹو بنام طارق جمیل

ڈئیر مولانا! امید ہے خیریت سے ہو ں گے۔ کافی دنوں سے سوچ رہا تھا خط لکھوں۔ خط لکھنے کی ایک وجہ تو حوروں کا اصرار تھا۔ کئی بار میرے

مزید پڑھیں »
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

سندھ کی صوفیانہ اساس پر مذہبی جنونیوں کی یلغار

پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو بطور خاص یہ بات سمجھنا ہوگی کہ سندھ میں مذہبی تقدسات کے نام پر فتویٰ فتویٰ کھیلتے مذہبیوں کے سامنے ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے

مزید پڑھیں »

کرونا اور جہالت کا مشترکہ حملہ

پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک دور سے گذر رہا ہے۔ یہ جملہ ہم کئی دہائیوں سے سنتے آئے تھے لیکن ایسا واقعی ہوتا دیکھ پہلی بار رہے ہیں۔ کرونا

مزید پڑھیں »