Qalamkar Website Header Image

سیکیور پاکستان – سید حسن

پاکستان اس وقت نازک دور کا شکار ہے۔ ہر طرف دہشت گردی کا خوف منڈلاتا رہتا ہے۔ قتل و غارت، اغوا برائے تاوان اور اس طریقہ کی وارداتیں عام ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ بم دھماکے جیسے اب کوئی بات ہی نہیں رہی۔ اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی کسی کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔ یہاں جون ایلیا کا ایک شعر یاد آرہا کہ
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اِن سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
حکومت اور فوجی ادارے مل کر ان دہشتگردوں کا مقابلہ کررہے ہیں اور کافی حد تک کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ مگر اب یہ بات ہم عوام کے ذہنوں میں بیٹھ جانی چاہیے کہ ہمیں خود بھی اپنی حفاظت کا سامان کرنا ہوگا۔ کچھ بنیادی چیزیں جو کہ ہم سب کو معلوم ہونی چاہئیں ۔ جیسے کہ کسی بھی حادثہ کے وقت زخمی افراد کو کس طرح طبی امداد فراہم کرنی ہے۔ اور اس لمحہ ہماری کیا ذمہ داری ہونی چاہیے۔
انہیں تمام باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آسٹریلیا میں مقیم ایک پاکستانی سید سیرت عباس اور ان کی ٹیم نے کراچی کے سندھ اسکاؤٹس آڈیٹوریم میں سیکیور پاکستان کے نام سے پروگرام منعقد کروایا۔ جس میں شہر کے تقریباََ چوبیس کے قریب اسکولوں نے شرکت کی اور ساتھ ساتھ وہاں جامعہ کراچی اور جامعہ ہمدرد کے طلبہ بھی شریک تھے۔ سیکیور پاکستان کا موضوع اسی بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم کس طرح اپنے ملک کو محفوظ بنائیں اور وہ کون سے طریقہ کار ہیں جس سے یہ عمل انجام دیا جا سکتا ہے۔ اور اسی چیز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسی طرح کے مہمانوں کو بلایا گیا جو کہ وہاں موجود حاضرین کو طبی امداد اور دیگر طور طریقوں سے اگاہی فراہم کریں ۔
مہمانوں میں سی ائی اے کے ڈی آئی جی جناب جمیل احمد اور ایس ایس پی ٹریفک پولس اعجاز شیخ صاحب موجود تھے جنہوں نے اپنے تجربات حاضرین کے ساتھ شئیر کیے۔ جمیل احمد صاحب کا کہنا تھا کہ سیکیور پاکستان ایک انتہائی مفید قدم ہے اور عوام الناس کو اگاہی اور شعور دینے میں مدد کرے گا۔ انہوں نے سیرت عباس اور انکی ٹیم کے ساتھ نیک خواہشات کا اظہار کیا اور مبارک باد پیش کی۔انہوں نے این سی سی کے کورس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جب یہ کورس باقاعدہ اسکولز میں کرایا جاتا تھا شائد اس وقت اس کی اتنی ضرورت نہیں تھی مگر آج کے حالات کو دیکھتے ہوئے اس کی شدت کے ساتھ کمی محسوس کی جارہی ہے۔ انکا مزید یہ کہنا تھا اس طرح کی تنظیموں یا اسکاوٹس جو کہ سیکیور پاکستان کی تھیم پر کام کر رہے ہیں ان کی اس طریقہ سے حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی جس طریقہ سے کی جانی چاہیے۔آرمی پبلک اسکول اور چارسدہ یونیورسٹی کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طریقہ کے سانحات سے نمٹنے کے لیے ہمیں تیار رہنا ہوگا اور ہمیں اپنے بچوں کو بھی تیار کرنا ہوگا اور اس کے لیے ان میں اگاہی کا ہونا ضروری ہے۔ اعجاز شیخ صاحب نے بھی اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا اور خوشی محسوس کی کہ وہاں موجود بچے بھرپور توانائی کے ساتھ شریک تھے اور بھرپور حصہ لے رہے تھے۔ ان کا آج کے اسکولز سے یہ شکوہ تھا کہ بہت سے اسکولز نے بچوں کی جسمانی توانائی کو مدِ نظر نہیں رکھا اور ان میں اسکاوٹس یا طبی امداد کے حوالے سے شعور نہیں دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ سیکیور پاکستان کا یہ قدم قابلِ ستائش ہے۔ ان کے مطابق بچوں کے ذریعہ معاشرے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ جیسے کہ اگر بچے کو یہ بتایا جائے کہ گاڑی چلاتے ہوئے سیٹ بیلٹ پہننا لازمی ہے تو یہ بات وہ اپنے والدین کو بتائے گا اور کوئی بھی والدین اپنے بچوں کی بات کو رد نہیں کریں گے۔
اشفاق میمن صاحب جو کہ سابق وزیر برائے تعلیم بھی ہیں ،سیرت عباس اور ان کی پوری ٹیم کو سراہا اور سیکیور پاکستان کی اس کوشش کے ساتھ نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ سیکیور پاکستان کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔سیکیور پاکستان کی جانب سے دی جانے والی ٹریننگ اس وقت بہت ضروری ہے اور آئندہ آنے والوں کے لیے لازم ہے کہ ان تمام طبی امداد اور دیگر دہشتگردی اور سانحات سے نمٹنے کے لیے ان تمام چیزوں کا علم بہت ضروری ہے۔
سیکیور پاکستان کے پروگرام میں مختلف اسکاؤٹس نے طبی امداد سے متعلق عملی مظاہرہ پیش کیا اور حاضرین سے داد وصول کی۔ بوہری برادری سے تعلق رکھنے والے ایک دستے نے اپنی کراٹے کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفاع کرنے کے طریقے دکھائے۔ ساتھ ہی ساتھ عظیمی اسکول سے تعلق رکھنے والے اسکاؤٹس کے دستہ نے طبی امداد کے حوالے سے عملی مظاہرہ کیا اور حاضرین نے ان تمام کی کارکردگیوں سے استفادہ کیا۔ سیکیور پاکستان کی جانب سے تمام مہمانوں کو اعزازی شیلڈز سے نوازا گیا اور عمدہ کارکردگی پیش کرنے والوں میڈلز اور سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا۔
اس طرح کے پروگرامز معاشرے کی اگاہی کے لیے اہم ثابت ہوتے ہیں۔ اور جس طرح سیدسیرت عباس اور ان کی ٹیم نے سیکیور پاکستان کے پروگرام کو منعقد کرا کے اس عملی میدان میں اپنے شعور اور سکھانے کی لگن کو ثابت کیا وہیں پر حاضرین نے اس پروگرام کو خوش آئند قرار دیا۔ تمام ایسے ادارے جو کہ انسانیت کی فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں یا خواہشمند ہیں ہماری اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کران کا ساتھ دیں اور پاکستان کو محفوظ بنانے میں اپنا عملی کردار نبھائیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس