Qalamkar Website Header Image

ہم کہ ٹھہرے مسلکی

کوئی دعویٰ تو نہیں مگر خود کو رواداری کا پاسدار اور روشن خیالوں کا خیر خواہ گردانتا ہوں۔ مسلکی اعتبار سے فقہ جعفریہ سے ہوں لیکن حلقۂ احباب میں کچھ قریبی دوست اہلحدیث بھی ہیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں انھی میں سے ایک دوست کے ساتھ، شہر سے باہر قیام تھا۔ نمازیں تو ہم اکثر اپنے اپنے دفاتر میں پڑھ آیا کرتے تھے لیکن سحر و افطار اکھٹے ہی کرتے۔ میں ان سے دس منٹ بعد روزہ افطار کرتا۔ شروع شروع میں وہ مجھ سے اکثر کہا کرتا تھا کہ شاہ جی کوئی فرق نہیں پڑتا آپ ساتھ ہی روزہ کھول لیا کریں۔ میں ہنس کے ٹال دیتا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ سمجھ گیا کہ یہ نہیں مانے گا

رمضان المبارک میں اکثر عشاء کی نماز اور تراویح کے لئے قریبی بریلوی مسلک کی مسجد میں جایا کرتے تھے۔ میں بھی اُن کے ساتھ باجماعت نماز اور کچھ رکعت تراویح پڑھ لیتا تھا۔ وہ ایک دن مجھے کہنے لگا کہ آئیں شاہ جی آج آپ کو بہترین قرات کی نماز تراویح پڑھواتے ہیں۔ میں حسب معمول راضی ہو گیا اور ہم مسجد بیت المکرم (اہلحدیث) جا پہنچے۔ حسب معمول میں نے اپنے طریقے سے وضو کیا اور باجماعت نماز کے لیے نیت کی اور نماز شروع ہو گئی۔ اچانک میرے پیروں میں ایک سرسراہٹ سی محسوس ہوئی۔ ایسا لگا کہ کوئی بلی پیروں میں اپنا سر مسل کر لاڈ کر رہی ہو۔ گھبرا کر پیروں کی طرف دیکھا تو پچھلی صف میں سے ایک صاحب میری شلوار کے پائنچے فولڈ کر رہے تھے۔ خیر پھر دھیان تو بٹ گیا اور خشوع و خضوع ان پیچھے والے صاحب کی نظر ہو گیا۔

ادھر مولوی صاحب نے سلام پھیرا، ادھر میں نے اپنا رُخ پیچھے والے صاحب کی طرف پھیر لیا۔ موصوف ایک رکعت دیر سے جماعت میں شامل ہوئے تھے اس لیے اب قیام میں تھے۔

یہ بھی پڑھئے:  بریلوی مسلک میں پروان چڑھتی انتہا پسندی | عدیل بخاری

خیر آٹھ رکعت نماز تراویح پڑھ کر جب باہر نکلے تو میں نے یہ ذکر خیر اپنے کولیگ سے کیا۔ وہ ذرا مزاج کا تیز ہے اس لئے ان صاحب کے لیے چار حروف کا استعمال کرتے ہوئے بولا، "میں خود ان لوگوں سے تنگ ہوں جو دوران نماز ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن سے نمازی کی توجہ خدا کی بجائے ان کی طرف ہو جائے”۔ خیر میں تو مذہبی ہم آہنگی کے جذبے سے سرشار، اکثر کسی بھی مسجد میں جا کر نماز ادا کرتا رہتا ہوں۔

بات ہو بین الاقوامی ادیان میں ہم آہنگی کی یا اتحاد بین المسلمین کی ،عالمی سطح پر تو یہ ہماری گرفت سے باہر کی باتیں ہیں۔ چودہ سو سال ہو گئے دین اسلام کو اور یہ گروہ بندی تب سے ہی جاری ہے۔ مسجد ضرار کا گرایا جانا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ ہمیں پاکستان میں رہنا ہے اور یہاں کے زمینی حقائق کو تسلیم کرنا ہو گا۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان یوں تو مسلم اکثریتی ملک ہے مگر فقہ کے اعتبار سے یہ اکثریت تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ فقہ جعفریہ سمیت پانچ فقے ہیں جن میں سے سب سے بڑی تعداد امام ابو حنیفہ رح کے پیروکاروں کی ہے۔ دوسرے اور تیسرے نمبر کی درجہ بندی میرا مطمع نظر نہیں، اصل توجہ طلب موضوع یہ ہے کہ ہم اس ملک میں روداری کو کیسے فروغ دیں؟ کہ بھلے وقتوں کی امن و امان کی فضاء دوبارہ لوٹ آئے۔

اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ میں فقہ کی بات کر رہا ہوں فرقہ بازی کی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہر مسلمان کسی نہ کسی امام کی شرع کا پیروکار ہے یا پھر کچھ دعویدار ایسے بھی ہیں کہ جنکا خیال ہے کہ وہ کسی فقہ یا فرقہ سے تعلق نہیں رکھتے اور صرف مسلمان ہیں۔ اس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ مذکورہ شخص کی ذاتی تحقیق بلند پایہ ہے، وہ قران و حدیث کے علوم پر عبور رکھتا ہے اور عربی زبان کو بغیر اردو ترجمہ بول اور سمجھ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  فاطمہؑ فاطمہؑ است - عامر حسینی

اب بات کرتے ہیں پاکستان میں اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی۔ اس سلسلے میں حکومت وقت کی نیک نیتی شامل حال ہونا ضروری ہے۔ تمام علمائے پاکستان کو اعتماد میں لے کر تمام فقہ کو رجسٹرڈ کیا جائے اور ان کو سرکاری سطح پر دارالحکومت میں دفاتر الاٹ کیےجائیں۔ پھر ملک بھر کی تمام مساجد کو اپنے اپنے ہیڈ کوارٹر میں رجسٹر ہونے کا پابند کیا جائے۔ اس طرح تمام امام مسجد اپنے ہیڈ کوارٹر سے سند یافتہ ہونے چاہئیں اور ان کے ہر قول و فعل کا ذمہ دار انکا ہیڈ آفس ہونا چاہئے۔ اس طرح ملک میں کوئی فقہی مسئلہ اور فتویٰ، متعلقہ فقہ کا ہیڈ آفس دینے کا مجاز ہو اور اگر دیگر فقے اس فتوے سے متفق ہوں تو وہ اپنا اپنا تائیدی فتویٰ جاری کریں۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے سب ہیڈ آفس مل کر حکومت کو مشترکہ طور پر سپورٹ کریں۔ یوں ملک آہستہ آہستہ اس مذہبی ہم آہنگی کی طرف بڑھتا چلا جائے گاجو وقت کی اشد ضرورت ہے اور جس کے نہ ہوتے ہوئے جہاں عوام کی زندگی ابتری کا شکار ہے وہیں بین الاقوامی سطح پہ بھی ہم انگشت نمائی اور ہرزہ سرائی کا سامنا کر رہے ہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس