لاہور جو ایک قدیمی اور تاریخی شہر ہے۔ زمانے کے عروج و زوال دیکھتا ہوا آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ مغلیہ تعمیرات کے بعد انگریز کا دور آیا تو لاہور ریلوے اسٹیشن مال روڈ پر جنرل پوسٹ آفس اور ہائی کورٹ جیسی پر شکوہ عمارتیں اس کے حسن میں اضافہ کا سبب بنی۔ ماڈل ٹاون کا خوب صورت نقشہ جس کا آج تلک کوئی ٹاون مقابلہ نہیں کر سکا۔ ریلوے لائین کا بہترین نظام بچھیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور کی ترقی کو نظر لگ گئی اور کوئی قابل ذکر میگا پراجیکٹ دیکھنے میں نا آیا۔
البتہ اہل لاہور کو ہمیشہ اچھی پبلک ٹرانسپورٹ میسر رہی۔ کسی زمانے میں لاہور میں جی ٹی ایس کی سرخ بسیں اور ڈبل ٹیکر چلا کرتی تھیں اور اس کے بعد پنجاب اربن ٹرانسپورٹ کی پیلی volvo بسیں عوام کو بہترین سروس دیا کرتی تھیں۔ پھر اس وقت کی حکومت نے یہ محکمہ یہ کیہ کر بند کر دیا کی وہ خسارے میں ہے۔ پھر لوگ منی بسوں اور ویگنوں میں مرغا بننے پر مجبورہو گئے۔ پھر اسی پارٹی کی حکومت کو خیال آیا کہ عوام سہولت فراہم کرنا تو حکومت وقت کا کام ہے۔ اس سوچ کو بنیاد بنا کر لاہور میں میٹرو بس سروس کا میگا پراجیکٹ شروع کیا گیا۔ اور پھر اورنج لائین ریل کا پروجیکٹ بھی بہت تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔
لاہور شہر کے دو میگا پراجیکٹس، میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین کے کامیابی سے مکمل ہونے کے بعد بھی ٹریفک کے مسائل پوری طرح حل نہیں ہو پائیں گے۔ اس کے لیے کچھ اور میگا پراجیکٹس کی ضرورت ہے۔ اگر صاحبانِ اختیار(خصوصا” پاکستان ریلوے کے ) ماضی کی یادوں کی چلمن سے پردہ ہٹائیں تو کچھ لوکل ریل کارز روادواں ، نظروں میں گھوم جائیں گی۔ خاص طور پر لاہور ریلوے اسٹیشن سے جلو موڑ کی جانب ایک ریل چلتی تھی جس پر اس زمانے میں بھی بہت رش ہوا کرتا تھا۔ اتفاق سے یہ ٹریک آج بھی قائم و دائم ہے۔ سمجوتہ ایکسپریس ہندوستان اسی راہ آہن پر سے گزرتی ہے۔
آج کے دور میں اگر اس روٹ کو مریدکے یا کالا شاہ کاکو سے شروع کر کے جلو موڑ یا واہگہ تک رواں کر دیا جائے تو عوام کو انتہائی مناسب داموں ایک بہترین سروس مل سکتی ہے۔ اسی طرح کا ایک روٹ رائیونڈ تک چلایا جا سکتا ہے۔ جس پر کوئی نیا خرچہ نہیں آئے گا۔ ایک تیسرا روٹ جو کہ نسبتا” نابود ہو چکا ہے اور مختلف جگہوں پر قبضہ مافیابھی اسکی باقیات پر ہاتھ صاف کر چکا ہے ،وہ ہے لاہور ریلوے اسٹیشن سے ڈرائی پورٹ مغلپورہ اور لال پل سے ہوتا ہوا صدر آفیسر کالونی کے عقب میں اور پھر آرڈنس ڈپو کے اندر داخل ہوتا ہوا پرانے ائرپورٹ کے سامنے سے گزرتا ہوا ڈیفنس کی جانب غائب ہو جاتا ہے۔ اس روٹ کو بحال کرنے پر کچھ بڑا خرچہ ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ خرچہ بہرصورت مندجہ بالا دو میگا پراجیکٹس کا عشرے عشیر بھی نہ ہو گا۔ نہ پورے شہر کی کھدائی ہو گی نہ املاک کو نقصان ہو گا سوائے قبضہ مافیا کے. اس طرح تین نئے میگا پراجیکٹس ایک کی قیمت میں بن سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں صوبائی و ضلعی حکومتوں کو ریلوے حکام کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی بنانا ہو گی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn