اگر آ پ کسی کو ٹرک اڈ ے پر گرمیوں میں بھی پینٹ کوٹ پہنے دیکھیں تو اسے دیوانہ ہر گز نہ سمجھیں ۔ عین ممکن ہے وہ ہمارا دوست عبد الماجد ملک ہو۔ یہ ٹرانسپورٹروں میں ادیب اور ادیبووں میں ٹرانسپورٹر ہے۔ اسی لیے نہ تو ادیب اس کی بات سمجھ پاتے ہیں اور نہ ہی ٹرانسپورٹر۔ اپنے آپ کو میری طرح خود ہی دانشور سمجھتا ہے ۔ یہی حالات رہے تو جلد ہی ہم دونوں ایک دوسرے کو خفیہ دانشوری کی سند بھی عطا کر دیں گے۔ نذیر ناجی صاحب کو اپنا استاد مانتا ہے ۔ عاجز اتنا ہے کہ استادوں سے آگے بڑھنا معیوب سمجھتا ہے۔سننے میں آیا ہے کہ نواب ریئسانی کے بیان کے بعد بی اے کی ڈگری حاصل کر چکا ہے ۔
عبد الماجد ملک شش پہلو شخصیت کا مالک ہے ۔ اسی لیے اس کی پیدائش قصور ، افزائش میانوالی ، رہائش لاہور اور نمائش (سسرال)کراچی میں ہوئی۔ شخصیت کے باقی دو پہلو سیکریٹ ایکٹ کے زمرے میں آتے ہیں ۔ عمر کا ایک حصہ میانوالی میں گزار ا لہذا حافظ مظفر محسن کے منع کرنے کے باوجود ڈنر شوق سے کرتا ہے ۔کبھی کبھی ساتھ میں رات کا کھانا بھی کھالیتا ہے ۔اب تو کئی دوست بھی سمجھا چکے ہیں کہ ہر وقت ڈنر کرنا اچھی بات نہیں۔ویسے بھی ادھر ادھر منہ مارنے سے بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں ۔ ضد کے معاملے میں پٹھان ہے۔اس لیے زیادہ سمجھاؤ تو ضد میں آ کر صبح ، دوپہر ،شام تینوں وقت ڈنر ہی کرتا ہے۔ شاہ صاحب کہتے ہیں یہ ضد سے زیادہ ’’موڈ‘‘ میں آتا ہے۔ذہانت اور اردو دانی اس پر ختم ہو جاتی ہے۔ویسے تو میں’’ مر جاتی‘‘ بھی کہہ سکتا تھا لیکن پھر آپ کو ختم ہونے اور مر جانے کا فرق کیسے معلوم ہوتا؟ الفاظ سے کھیلنا بخوبی جانتا ہے بس کبھی کبھار کھیل کھیل میں انہیں توڑ بھی دیتا ہے۔زبان دانی کا ماہر ہے اس لیے گفتگو کے وہ پہلو بھی سمجھ جاتا ہے جو دوسرے کے ذہن میں بھی نہیں ہوتے۔ایک مرتبہ نوکری کے لیے انٹرویو دینے گیا تو باس نے پوچھا :آپ کا کتنے سالوں کا تجربہ ہے؟ کہنے لگا 3 سالوں کا، ویسے تو دو سالیاں بھی ہیں لیکن میں انہیں منہ نہیں لگاتا۔ اپنے آپ کو مرزا غالب کے برابر سمجھتا ہے۔ کہتا ہے میں بھی سور نہیں کھاتا لیکن بوتل پیتا ہوں ،اس لیے مجھ میں اور مرزا میں بس شاعری کا ہی فرق ہے۔ ویسے بوتل سوڈے کی ہی پیتا ہے تاکہ بوقت ضرورت سند رہے۔ مشاعرے میں شادی اور شادی میں مشاعرے کی طرح تیار ہوتا ہے۔شعر وادب سے اتنا لگاؤ ہے کہ اب شہر میں ایسی کوئی شاعرہ نہیں بچی جسے محبت کی نگاہ سے نہ دیکھا ہو۔ اسے جینز میں ملبوس لڑکیاں اتنی پسند ہیں کہ کافی پینے بھی گلوریا جینز ہی جاتا ہے ۔
گاڑی کومحبوبہ اور محبوبہ کو گاڑی سمجھتا ہے۔ اسی لیے ہر دوسرے ماہ گاڑی تبدیل کر لیتا ہے۔ محبوبہ کئی سال سے ایک ہی ہے وہ بھی 1988ء ماڈل کی سیکنڈ ہینڈ۔شیخوں میں بٹ اور بٹوں میں شیخ بن جاتا ہے۔ اکثر بڑے لوگوں کے ساتھ چائے پیتا نظر آتا ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے بڑے لوگوں سے میری مراد میں خود ہی ہوں ۔ لڑکیوں میں سب سے پہلے نبض دیکھتا ہے۔ ویسے تو آخر میں بھی نبض ہی دیکھتا ہے۔ حکیم حازق بننے کی کوشش میں ہمہ وقت جیب میں نسخے لیے پھرتا ہے۔ کچھ لوگ اس لبرل بھی سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں شریعت کا پابند ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسے شریعت صرف شادی کے وقت یاد آتی ہے۔شریف اتنا ہے کہ شادی کی پہلی رات بیگم کوشاعری سناتا رہا ۔ اس کے بعد سے ’’سنانے ‘‘کی ذمہ داری بیگم نے اٹھا رکھی ہے ۔ کھانے کے معاملے میں شیر ہے ،اسی لیے ہمیشہ ’’شکار ‘‘کر کے کھاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس نے ایک خوبصورت سیکرٹری رکھی اور پھر پہلی تنخواہ کے ساتھ ہی اسے فارغ کردیا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا۔ لوگ ملنے کے لیے اس سے فون پر ٹائم لیتے تھے ۔میں نے کہا:’’ اس میں کیاقباحت ہے ؟ سیکرٹری کو باس کے ٹائم ٹیبل کا علم ہوتا ہے لہذا اسی سے ٹائم لیا جاتا ہے ‘‘۔کہنے لگا:’’ قباحت یہ ہے کہ ٹائم باغ جناح کا لیتے تھے وہ بھی صرف اسی کو ملنے کا‘‘۔
موصوف ایک اخبار میں کالم بھی لکھتے ہیں ۔ایک اس لیے کہ پہلے دو میں لکھتے تھے ۔ایک دن کہنے لگا :میں اپنے کالموں کی کتاب چھپوانے کا سوچ رہا ہوں ۔ میں نے مبارک باد دی توبولا: ایک مسئلہ ہے ، وہ یہ کہ کتاب تو میں چھپوا لوں گا مگر اسے خریدے گا کون؟ یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس کا حل سوچے بنا کتاب کی اشاعت ممکن نہیں لہذا کئی ماہ تک یہ کتاب شائع نہ ہو سکی ۔ کچھ عرصہ قبل اس نے ہمت کر کے یہ کتاب شائع کروا لی ۔ ایک دن میں نے پوچھا کتاب کا کوئی نسخہ بچا ؟ کہنے لگا اگر کل تک نئے گھر میں سوئی گیس کا میٹر نہ لگا تو یقیناًآخری نسخہ بھی نہیں بچے گا ۔ سنا ہے میٹر نہیں لگا سو کتاب اب نایاب ہو چکی ہے۔۔ جب اسے معلوم ہوا کہ ہمارے دوست گل نوخیز ٹی وی کے لیے سکرپٹ لکھتے ہیں تو ایک عرصہ تک گل نوخیرکے پیچھے پڑا رہا کہ اسے بھی اچھا سا رول دیا جائے۔ کئی ماہ بعد گل نوخیز نے جو رول دیا وہ ’’کریم رول‘‘ تھا۔جگت لگاتے وقت فیصل آبادی بننے کی کوشش کرتا ہے لیکن ہوتا وہی ہے جو کسی فیصل آبادی کو جگت لگانے کے بعد ہو۔ اکثر اوقات جگتیں ایسے سنتا ہے جیسے عقیدت مندپنجابی کسی سعودی سے گالیاں ۔
اس کی دور کی نظر کمزور ہے ۔اس لیے لڑکیوں کو قریب سے دیکھتا ہے۔آدھی تنخواہ لڑکیوں کے چکر میں اجاڑ دیتا ہے ۔باقی آدھی وہ خود اجاڑ لیتی ہیں ۔ مساوات کا قائل ہے لیکن ووٹ شیر کو دیتا ہے۔ڈائیو میں بیٹھے تو اس وقت تک بوتل منگواتا رہتا ہے جب تک ٹکٹ کا ریٹ لوکل جتنا نہ بنا لے۔ یہ عموماً شام کو کالی عینک لگائے باغ جناح میں مٹر گشت کرتا ملے گا ۔ پیدل چلنے کا اتنا شوقین ہے کہ اگر پولیس میں ہوتا تو ضرور’’ گشتی سکواڈ‘‘ کالیڈر ہوتا۔اسے سیاست دانوں میں وہی پسندہے جو ڈنر پر بلائے۔فلمی اداکاروں میں عمران ہاشمی اس کا پسندیدہ اداکار ہے جبکہ اداکاراؤں میں شاہ رخ کا فین ہے۔ شاہ رخ کا نام سن کر جانے کیوں اپنے شہر میانوالی کا حوالہ ضرور دیتا ہے۔ڈاکٹر اجمل نیازی ، عطا اللہ عیسی خیلوی اور عمران خان کا دیوانہ ہے۔ وجہ صرف اتنی ہے کہ ان کا تعلق بھی میانوالی سے ہے۔ ایک بار شاہ صاحب نے اس سے پوچھا : میانوالی میں سب سے خوبصورت جگہ کون سی ہے ۔ کہنے لگا: نمل یونی ورسٹی کے سامنے کبوتروں والا دڑبہ۔
عبد الماجد ملک لاہور میں رہتے ہوئے بھی میانوالی کی شناختی علامت ہے۔غصے میں ہو تو لڑائی جھگڑا بھی کر لیتا ہے اور بوقت ضرورت ہنسی خوشی مار بھی کھا لیتا ہے ۔ اسی لیے جب شناختی کارڈ بناتے ہوئے کلرک نے شناختی علامت پوچھی تو کہنے لگا :’’ کٹ کا نشان لکھ لیں‘‘۔کلرک نے سوال کیا: ’’کہاں پر؟‘‘ تو بے نیازی سے کہنے لگا :’’کہیں بھی!!‘‘ ۔ میری دعا ہے کہ اللہ ہمارے اس دوست کو یونہی ہنستا مسکراتا رکھے۔ جس دن یہ ساتھ نہ ہو اس دن باغ جناح اور مال روڈ کی تمام خوبصورتی گاڑیوں کے دھوئیں میں دم گھٹنے سے مر جاتی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn