محمد دیہہ بزرگی ایک نوجوان ہے جو شاہ چراغ کے مزار کے قریب ایک ہوٹل اور ریسٹورنٹ کا مالک ہے۔ انگریزی بہترین بولتا ہے صبح جب میں ہوٹل پہنچا تو میرے لیے ناشتہ خود بنا کر لایا۔ ناشتے کے دوران گفتگو کا سلسلہ جاری رہا اور بہت ہی کم وقت میں محمد اور میرے درمیان بے تکلف گپ شپ ہوئی۔ کرمان سے شیراز چودہ گھنٹے کا سفر ہے اور تھکاوٹ کی وجہ سے میں ناشتہ کرنے کے بعد سو گیا۔ جاگنے کے بعد میں نے محمد سے کہا مجھے پاسادگار اور پرسوپولیس کے لیے ٹیکسی کروا دو، محمد نے مجھے اپنی گاڑی کی آفر کی کہ کافی عرصہ سے میں بھی شہر سے باہر نہیں گیا، کچھ سیروتفریح اور تمہارے ساتھ گپ شپ بھی رہے گی۔ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا فوراًہامی بھر لی۔ چنانچہ ایک لاکھ تومان میں مجھے پاسادگار، پرسوپولیس اور اندرون شہر کی روشنیاں دکھانا محمد کے ساتھ طے پایا۔
محمد بہت محنتی نوجوان ہے، غیر شادی شدہ اور اسی ہوٹل میں رہتا ہے۔ دن رات منیجر، ریسپشن سمیت سارے کام خود کرتا ہے۔ ناشتہ بھی بنا دیتا ہے مہمانوں کو گاڑی میں گھمانے کی سہولت بھی دیتا ہے۔ ریسپشن کاؤنٹر پر سو جاتا ہے اوراستقبالیہ دروازہ کھلتے ہی جاگ جاتا ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا تم تھکتے نہیں توقہقہہ لگا کر بولا نو آئی ایم ڈنکی۔۔۔۔
ہنس مکھ، لاابالی اور کسی حد تک عیاش بھی ہے۔ مذہب سےلگاؤ بالکل نہیں رکھتا، کہتا ہے کبھی نماز پڑھ لیتا ہوں روزہ رکھتے تو موت آتی ہے۔ پریشانی بڑھ جائے تو شاہ چراغ (محمد بن امام موسیٰ کاظم ؑ اور احمد بن امام موسیٰ کاظم ؑ اسی احاطہ میں مدفون ہیں اور امام زادہ احمد شاہ چراغ کے نام سے مشہور ہیں)کے مزار کی زیارت کر کے سکون محسوس کرتا ہے۔ بہت سی لڑکیوں سے دوستی ہے اور ڈیٹ پر بھی لے جاتا ہے۔ محمد دیہہ بزرگی شادی کا قائل نہیں اس کا خیال ہے کہ زندگی مزے لیتے گذارنی چاہیے اور ذمہ داریاں انسان کو جلد بوڑھا کر دیتی ہیں۔
ہلکی میوزک کے ساتھ کشادہ سڑک پر پاسادگار کی طرف سفر کرتے ہوئے محمد نے مجھے بتایا کہ وہ ترکی،اٹلی، سپین،متحدہ عرب امارات، آذربائی جان اور ارمینیا گھوم آیا ہے۔ محمد کہتا ہے کہ میرے ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ ہمیں سہولتیں میسر ہیں، ہمارا رہن سہن بہترین ہے، کاروبار بہتر اور آمدنی اچھی ہے۔ لیکن مجھے میرے ملک میں گھٹن کا احساس ہوتا ہے اور جب اس احساس سے میرا دم گھٹنے لگتا ہے تو ملک سے باہر جا کر میں اپنی گھٹن کم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
محمد دیہہ بزرگی انقلابی حکومت اور ان کی پالیسیوں سے نالاں ہے اس کا کہنا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عظیم تر فارسیوں کو مذہب کا ٹھیکیدار بنا کر ہماری عظیم تہذیب کا ستیاناس کر دیا ہے۔ ایرانی معاشرے پر مذہبی چھاپ لگا کر ماحول گھٹن زدہ کر دیا ہے۔ ہم ایرانی آزاد خیال ہیں اور مذہبی پابندیوں کی وجہ سے خود کو قیدی محسوس کرتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ میں اپنے ملک سے باہر کبھی بھی نہ جاتا مگر یہاں کی پابندیاں مجھے مجبور کرتی ہیں کہ دوسرے ملکوں میں جاؤں، شراب پیوں، کلب میں گھنٹوں ناچتا رہوں، میوزک پر مست ہو جاؤں اور عورتوں کو مقصورات فی الخیام کی بجائے تتلیوں کی طرح باغوں اور کھلیانوں میں اڑتا دیکھوں۔
پاسادگار پہنچ کر ہم ڈیڑھ گھنٹے کے لیے الگ ہوئے اور پھر پرسوپولیس میں بھی تین گھنٹے مجھے اپنی گائیڈ کے ساتھ تاریخی معلومات اکھٹے کرتے گذری۔ واپسی پر محمد نے کچھ کباب اور سوڈا کی بوتل خریدی اور گاڑی میں بیٹھتے ہی اپنی سیٹ کے نیچے سے ایک پلاسٹک کی بوتل نکالی اور بولا کہ شام کے وقت شراب کی چسکیاں لیتے ہوئے ڈرائیو کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ اس نے تین چار سپ لیے تھے کہ میں نے اسے منع کیا کہ ڈرائیونگ کے دوران شراب نوشی سے پرہیز کرے اس نے مجھے یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ اچھی طرح ڈرائیو کر سکتا ہے مگر میں نے اصرار کیا کہ مجھے ایسا سفر کرنا پسند نہیں تو گلاس میں موجود مشروب کو باہر انڈیل کر بولا تم پاکستانی بھی ہمارے ملاؤں کی طرح ہو۔
دیہہ بزرگی کا کہنا ہے کہ ایرانی لڑکیاں پردے کو پسند نہیں کرتی اور اگر مولوی ہمیں آزاد کر دیں تو یہ ساری لڑکیاں سکارف اتار کر پھینک دیں گی اور یورپی لباس میں کھلے عام نظر آئیں گی۔ ان لڑکیوں کے بوائے فرینڈز ہیں اور یہ ان کے ساتھ آزادانہ گھومنا چاہتی ہیں۔ شاہ ایران کے دور میں ہم بہت آزاد تھے اور وہی ہمارا حقیقی رہنما تھا کہ جس کی بدولت ہم آزادی کا سانس لیتے تھے اور دنیا بھر کے لوگ ہمارا ملک دیکھنے اور سیر و تفریح کے لیے آیا کرتے تھے۔ تب معاشرہ بہت خوبصورت تھا۔ یہاں شراب خانے اور کلب بھی آباد تھے اور مسجدیں بھی آباد تھیں۔ جس کا دل چاہتا کلب جائے اور جو مسجد میں نماز پڑھے۔ محمد کے بقول شاہ ایران کے دور میں مساجد موجودہ دور کی نسبت زیادہ آباد تھی۔
ہم ہوٹل پہنچے تو کھانا ساتھ کھایا اور میں جلدی سو گیا صبح نماز کے وقت میں جاگا تو محمد بھی جاگ رہا تھا، میں شاہ چراغ کے مزار کی طرف جانے لگا تو وہ اپنی مددگار کوجگا کر میرے ساتھ ہو لیا۔ مزار میں پہنچ کر میں نے وضو کیا اور نماز پڑھی، امام زادوں کے مزار کی زیارت کی پھر تلاوت کرنے لگا سورج طلوع ہونے کے بعد میں باہر صحن کی طرف جانے لگا تو دیکھا محمد سید احمد بن امام موسیٰ کاظم ؑ کے مزار کی جالیوں کو دونوں ہاتھوں سے تھامے دو زانوں بیٹھا ہے، میں نے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا اور باہر نکل آیا۔ تھوڑی دیر بعد محمد باہر نکلا تو آنکھیں سرخ اور سوجھی ہوئی تھیں جیسے وہ بہت دیر تک رویا ہو۔ میں نے پوچھا تم نے نماز پڑھی جواب دیا نہیں میں اپنے آقا سے باتیں کرتا رہا ہوں۔
(نام فرضی اور کسی بھی قسم کی مماثلت محض اتفاق ہو سکتا ہے)
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn