Qalamkar Website Header Image

ایرانی اہل سنت اور مذہبی آزادی۔ حصہ اول

تفتان بارڈر سے ٹیکسی میں میرے ساتھ ایرانی بلوچ اہل سنت اور پاکستانی کشمیری سوار تھے۔ جبکہ ڈراٸیور فارسی شیعہ تھا۔ پاکستانی کشمیری چاہ بہار میں کام کے سلسلے میں مقیم تھا اور فارسی، بلوچی اور اردو اچھی بول لیتا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ بلوچ نوجوان سے پوچھے کہ ایران میں اس کے بلوچ قومی تشخص اور مذہبی آزادی بارے کیا مساٸل ہیں۔ بلوچ نوجوان نے بلوچی زبان میں کہا کہ فارسی کی بجائے بلوچی زبان میں بات کی جاۓ تاکہ وہ کھل کر بات کر سکے۔ اسکا کہنا تھا کہ ایرانی شیعہ ہم سے تعصب برتتے ہیں اور ہمارے لیے کاروبار اور ملازمت کے مواقع کم ہیں۔شیعہ ہمیں قتل کرتے ہیں جبکہ ہم نے بھی ان پر خودکش حملے کر کے بہت سے شیعہ قتل کیے ہیں۔ بلوچ اہل سنت نوجوان اس بات پر فخر کر رہا تھا کہ وہ اگر ہمارے دو قتل کرتے تھے تو ہم نے بیس بم سے اڑا دٸیے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمیں مذہبی آزادی نہیں اور بلوچستان کے علاوہ ہمیں کہیں بھی مساجد اور مدرسے تعمیر کرنے کی بھی اجازت نہیں۔

ٹیکسی ڈراٸیور اور میرے درمیان بھی مترجم کشمیری نوجوان ہی تھا۔ اس سے زہدان یا صوبہ بلوچستان و سیستان میں اہل سنت مسلک سے ہم آہنگی بارے سوال کیا تو اس کا جواب بالکل مختلف تھا۔ ٹیکسی ڈراٸیور کا کہنا تھا کہ اہل سنت ہمارے بھاٸی ہیں اور یہ نفرت اسلام دشمنوں نے اپنے مزموم مقاصد کے لیے پیدا کی ہے۔ اسکا کہنا تھا جامع مسجد امیرالمٶمنین ع میں خود کش حملے ہمارے اہل سنت بھاٸیوں نے نہیں کیے بلکہ اس کے پیچھے القاٸدہ اور جنداللہ جیسے دہشتگرد گروہ ہیں جنکی پشت پناہی شیطان بزرگ امریکہ کر رہا ہے۔
اسی گفتگو کے دوران ہم زہدان شہر پہنچ گئے گو کہ کشمیری محمد خالد نے چاہ بہار جانا تھا مگر میری درخواست پر وہ بھی میرے ساتھ مکی مسجد اور دارالعلوم دیوبند پہنچ گیا۔ بلوچ نوجوان کا کہنا تھا کہ مکی مسجد کا مولوی اسماعیل زٸی ایک ڈرپوک بوڑھا ہے۔
مکی مسجد زہدان کے عمر خیام روڈ پر واقع ہے۔ ہم مکی مسجد کے باب امام شافعی رح کی طرف سے داخل ہوۓ تو سکیورٹی پر مامور دو نوجوانوں نے ہمیں روک لیا۔ محمد خالد نے ان سے میرا تعارف کرایا تو قریب بیٹھے عالم دین نے آگے بڑھ کر خوش آمدید کہا بلوچی لہجہ کی اردو میں کہا کہ پاکستانی ہمارے بھاٸی ہیں اور ہم ان سے پیار کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  تنازعہ کشمیر،چندقابل توجہ نکات

اس کے بعد وہ ہمیں اندر لائے اور دارالعلوم دیوبند کے ایک نوجوان عالم دین ادریس دری یوسف آبادی سے تعارف کروایا۔ ادریس انگریزی بول سکتا تھا لہٰذا اسے ذمہ داری سونپی گٸ کہ مہمانوں کو مسجد اور مدرسہ کی سیر کراٸی جائے۔ مکی مسجد تینتیس ہزار مربع میٹر کے رقبہ پر محیط ہے۔ جسے ترکی ماڈل کی مسجد سلطان کی طرز پر بنائے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس وقت بھی مسجد کے بیانوے میٹر اونچاٸی کے چار میناروں اور دسیوں گنبد پر تیزی سے کام جاری تھا۔ ادریس یوسف آبادی نے بتایا کہ جمعہ نماز کے لیے تقریباً سات ہزار نمازی شریک ہوتے ہیں اورتیس ہزار نمازیوں کی گنجاٸش کے لیے توسیع کا کام جاری ہے ۔ مسجد سے منسلک دارالعلوم دیوبند میں سات سو طلبإ زیر تعلیم ہیں۔ سنہ ٢٠١٠ سے پہلے طلبإ کی تعداد بارہ سو کے قریب تھی مگر بعد میں ایرانی حکومت نے حالات کے پیش نظر پاکستانی اور افغانی طلبإ کا داخلہ ممنوع قرار دیا ہے۔
مسجد اور مدرسہ کے مہتمم شیخ الاسلام عبدالحمید اسماعیل زٸی ہیں جو بلوچستان کے بلوچ قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مولانا عبدالحمید کراچی سے عثمانی خاندان اور مولانا مفتی قاسم سے پڑہتے رہے ہیں۔ ان دنوں طبیعت ناساز تھی تو ملاقات نہ ہو سکی۔
نوجوان عالم دین سے میں نے بلوچ نوجوان کے غم و غصہ کی بات کی تو مسکراتے ہوئے بولے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایران میں اہل سنت کی تعداد دس فی صد ہے جبکہ ہماری مساجد ایران میں موجود کل مساجد کا تقریباً سترہ فی صد بنتے ہیں مطلب کہ ہمیں ہماری تعداد سے زاٸد مساجد بنانے کی اجازت ہے۔ مولانا عبدالحمید ایک معتدل عالم دین ہیں اور ہمیں بھی شدت پسندی سے منع کرتے ہیں۔ ایران ہمارا ملک ہے اور شیعہ ہمارے بھاٸی ہیں اور ہمارا متحد رہنا ہی ہماری اور ملک کی طاقت ہے۔
میں نے ادریس یوسف آبادی سے کہا کہ پاکستان میں کچھ شدت پسند گروہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تہران شہر میں دس لاکھ سے زاٸد اہل سنت رہتے ہیں اور انہیں ایک مسجد تعمیر کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ تو جواب دیا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ دس لاکھ اہل سنت پورے صوبہ تہران میں ہو سکتے ہیں مرکزی شہر میں اتنی آبادی ممکن نہیں مزید یہ کہ میں آٹھ بار تہران گیا ہوں اور پانچ مختلف اہل سنت مساجد میں نماز ادا کی یا خطاب کر چکا ہوں۔ پتہ نہیں یہ بات کس بنیاد پر پھیلاٸی جاتی ہے۔
ایرانی انقلابی حکومت کے اہل سنت علمإ بارے رویہ کے متعلق مولوی ادریس بولے۔ کہ ہمارے استاد محترم مولانا عبدالحمید نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامناٸی کو دیوبندی علما کے تحفظات بارے خط لکھا تھا جس کا انہوں نے جواب دے کر ہمیں مطمٸن کیا۔ اگر آج مولانا عبدالحمید مدرسہ میں ہوتے تو میں ان خطوط کے مندرجات بھی آپ کو ضرور دکھاتا۔

یہ بھی پڑھئے:  مذہب ، ریاست اور قومیت

(جاری ہے)

حالیہ بلاگ پوسٹس