اب مجھے ارگِ بم جانا تھا لہٰذا جا پہنچا۔ وہاں میرے گاٸیڈ محمد حسین صادقی تھے جو کہ ٹی وی ڈاکومینٹریز کے ڈاٸریکٹر اور پروڈیوسر ہیں۔ آج سے دو سو سال پہلے بم شہر اسی قلعہ میں آباد تھا پھر افغانیوں اور بلوچ حملہ آوروں کے لیے اسے چھاٶنی میں بدل دیا گیا اور یہ شہر باہر آباد ھوا۔ ارگِ بم مکمل مٹی سے بنا ہے جس پر
گارے کی لیپ کر دی گٸی ہے۔

ایرانی مورخین اس کی بنیادیں ایرانی بادشاہ گستاسپ کے دور کی بتاتے ہیں جو کہ تقریباً پانچ سو قبل از مسیح بنتا ہے۔ لیکن دسمبر ٢٠٠٣ کے زلزلہ کی تباہی کی وجہ سے تباہ شدہ حصہ کی دوبارہ تعمیر کے لیے یونیسکو کی زیر نگرانی جرمنی، جاپان اور اٹلی کی ٹیموں نے تحقیق اور آرکیالوجی کی مدد سے یہ انکشاف کیا کہ اس قلعہ کی بنیادیں چھ ہزار سال پرانی ہیں۔
اس قلعہ کی اپنی دنیا ہے اور انسان کو حیرت زدہ کر دینے والے کمالات سے بھری دنیا ہے۔ صدر دروازہ لکڑی کا بنا ہے بلندی سولہ فٹ اور چوڑاٸی چودہ فٹ ہے جبکہ مزید تین دروازے بھی مختلف تین سمتوں میں ہوا کرتے تھے۔ قلعہ دو لاکھ مربع میٹر تک پھیلا ہے اور ایرانی کہتے ہیں کہ یہ معلوم تاریخ کا سب سے بڑا قلعہ ہے۔ جبکہ اسے یونیسکو نے مٹی اور گارے سے بنا سب سے بڑا قلعہ تسلیم کیا ہے۔ صدر دروازے میں داخل ہوتے ہی دربان یا سکیورٹی گارڈ کے جگہیں دونوں طرف مختص تھیں۔ اس کے بعد بازار شروع ہوتا تھا۔ بازار کی کل لمباٸی ایک سو پندرہ میٹر تھی۔
جس کے دونوں اطراف لگ بھگ بیالیس دکانیں تھیں۔ اس دور میں بھی یہ لوگ مارکیٹنگ کی سمجھ رکھتے تھے لہٰذا گودام الگ اور شو روم بازار میں سامنے ہوا کرتے تھے۔ دکانوں کا ڈیزاٸن دیدہ زیب ہے جسے اوپر ایک آرک کی شکل میں موڑ دیا گیا تھا یہ گنبد نما آرک بھی مٹی اور گارے سے بنا تھا۔ کہتے ہیں اس بازار پر مکمل چھت ہوا کرتی تھی اور درمیان میں ہمارے ڈیرہ اسماعیل خان کے بازاروں کی طرح خوبصورت سا چوگلہ بنا تھا۔ ایرانی اسے چہار سوق کہتے ہیں۔ بازار ختم ہوتے ہی داٸیں ہاتھ پر ایک کھلے میدان کے چاروں طرف برآمدے بنا دیے گٸے تھے ایرانی اسے تکیہ کہتے ہیں۔
زمانہ قدیم میں یہ جگہ عمومی اکٹھ اور میٹنگ کے لیے ہوا کرتی تھی۔ لیکن صفوی دور میں اسے مجالس عزإ کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔ جسے ہم پاکستانی امام بارگاہ یا امام باڑہ کہتے ہیں اور ایرانی حسینیہ کہتے ہیں۔ اس سے آگے ایک بڑا سٹور تھا جس میں ٹھنڈک برقرار رکھنے کا نظام تھا. جس کا گنبد بارہ میٹر اونچا اور قطر پچپن میٹر کے قریب تھا۔ اسی سٹور کے پاس ہی بیسوی صدی کی ایک حنا فیکٹری کے آثار بھی ہیں۔ آگے بڑھیں تو قاجار دور کی بنی مسجد اور حمام کے آثار بھی موجود ہیں۔ اس کے بعد رہاٸشی علاقہ شروع ہوتا ہے۔ آثار کے مطابق یہاں پانچ سو اٹھاٸیس کے قریب گھر ہوا کرتے تھے جن میں پانچ سو گھر عام لوگوں یعنی کے غریب طبقہ کے تھے۔ بیس گھر مڈل کلاس لوگوں کے لگتے ہیں اور آٹھ گھر امرإ کے تھے جبکہ گورنر اور اس کا خاندان ان سے الگ اوپر بلندی پر رہاٸش پذیر تھا۔ دو سو سال قبل کی باقیات میں یہاں مسلمان، یہودی، آتش پرست اور ایک ہندو کے گھر کے آثار اور معلومات ملتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ ہندو بڑا تاجر تھا اور کاروبار کے سلسلہ میں یہاں مقیم تھا۔ صفوی دور کے ایک امیر خاندان سیستانی فیملی کا گھر بھی ھوا کرتا تھا اور گورنر کے گھر کے علاوہ صرف یہاں کنواں کے آثار ملے۔ رھاٸش سے پہلے گورنر کے گھوڑوں کا اصطبل تھا جو ایک بڑے میدان کے ساتھ تین بڑے ہال پر مشتمل تھا۔ جس کی دیواریں کارواں سراۓ سے جا ملتی تھیں۔ کاروان سراۓ دو منزلہ عمارت تھی جسے صفوی دور میں مہمان خانہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک جامع مسجد اور ایک چھوٹی مسجد کے آثار بھی موجود ہیں یہ بھی صفوی دور میں تعمیر ہوٸیں۔
کچھ مٶرخین کی راۓ ہے کہ عرب فتوحات کے بعد ایران میں سب سے پہلی بناٸی جانے والی مسجد ارگ بم کی یہی جامع مسجد ہے۔ اس کے علاوہ ساسانی دور کی باقیات میں چہار تقی اور قلعہ دختر کے آثار ملتے ہیں۔ جنمیں پہلا دو منزلہ جبکہ قلعہ تین منزلہ ہوا کرتا تھا۔ ارگ بم کی دو چیزیں حیران کن ہیں ایک محل کے ساتھ اوپر بنے ایک بڑے ٹاور کے آثار کہ جس سے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ کبھی ایسے ساٹھ سے زاٸد ٹاور ہوا کرتے تھے جنہیں چاروں طرف سے یوں ڈیزاٸن کیا گیا تھا کہ مخالف طرف سے آنے والی h وا آواز کو بیرکوں تک آسانی سے پہنچا دیتی تھی اور تمام احکامات اسی ٹاور سے بآسانی بیرکوں اور محافظوں تک وہیں کھڑے بذریعہ اعلان پہنچا دیے جاتے تھے۔
دوسرا شہر بم کا نہری نظام ہے ایرانی جسے قنات کہتے ہیں یہ زیر زمین نہری نظام ہے جس کے ذریعے پینے کے پانی اور کاشتکاری کا نظام چلایا جاتا تھا۔ یہ زیر زمین نہر اس شہر کے اندر ایک سرے سے داخل ہو کر دوسرے سرے سے باہر نکل جاتی تھی اور وہاں فصلوں کو پانی دیا جاتا تھا۔ شہر میں تین کنویں تھے ایک گورنر ہاٶس دوسرا سیستانی ہاٶس اور تیسرا عام لوگوں کے استعمال کے لیے۔ سینکڑوں فٹ کی بلندی پر موجود شہر اور گورنر ایران ہاٶس کے یہ کنویں زیر زمین نہر سے پینے اور عام استعمال کا پانی اوپر کھینچا کرتے تھے۔ اور مزے کی بات ہے کہ مٹی اور گارے سے بنے اس شہر کے نیچے زیر زمین گذرنے والی نہر اس کے اسٹرکچر کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچاتی تھی تاوقت کہ زلذلوں نے سارے شہر کو تباہ کر دیا۔ گورنر ہاٶس اور سیستانی ہاٶس کے کنویں اب بھی موجود ہیں۔ بم شہر قدیم زمانہ سے ہی تجارت کا مرکز رہا اور ان آثار کو جمہوری اسلامی ایران نے ١٩٩٣ میں تاریخی اثاثہ کے طور پر ڈیکلٸیر کیا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn