تفتان بارڈر کراس کرتے ہوۓ ایرانی سکیورٹی اہلکاروں کا رویہ دوستانہ ھے مسکرا کر خوش آمدید کہتے ہیں مگر جیسے ہی آپ چیک پواٸنٹ سے صوبہ بلوچستان میں داخل ھوتے ہیں۔ ٹیکسی ڈراٸیور سونے کی مرغی سمجھتے ہوۓ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ تفتان سے زہدان تک بس ملنا مشکل ھے اور ٹیکسی کے کرایوں کا کوٸی طریقہ کار نہیں ھے جس کا جتنا من چاھے اتنا چونا لگانے کی کوشش کرتا ھے مزے کی بات یہ ھے کہ پاکستان کی نسبت یہ کراۓ بہت کم ہیں اسی لیے ٹیکسی ڈراٸیوروں کا عام پاکستانی کو مہنگے داموں ٹیکسی کا سفر کرانا قدرے آسان ھے۔
مجھے چار سو پاکستانی کے عوض ٹیکسی ملی جس میں پچھلی سیٹ پر ایک ایرانی بلوچ اور دوسرا پاکستانی کشمیری بھی موجود تھے۔ پاکستانی چاہ بہار میں کسی کام کے سلسلے میں مقیم تھا جبکہ ڈراٸیور فارسی بولتا تھا۔ دوران گفتگو ایرانی ڈراٸیور اتحاد اور اتفاق کی بات کرتا رھا جبکہ بلوچ کے طنزیہ جملوں سے اندازہ ھو رھا تھا کہ وہ فارسی ایرانیوں کو پسند نہیں کرتا۔
زہدان صحرا میں آباد ایک خوبصورت شہر ھے خوبصورت عمارتیں، بڑی اور صاف شاہراٸیں ہیں لیکن عمارتیں اتنی بلند نہیں۔ جمعہ کا دن ھونے کی وجہ سے پورا شہر بند تھا۔ یہ اہل سنت مسلک دیوبند کا مرکز بھی ھے اور شہر کے وسط میں مکی مسجد اور دارالعلوم دیوبند پورے ایران میں دیوبندی فکر کا مرکزی مدرسہ ھے۔ اس مدرسہ کے وزٹ کا حال قلم کار میں لکھوں گا۔
یہاں سے میں بس ٹرمینل پہنچا تو ایک بار پھر بہت سے شلوار قمیض میں ملبوس جوان جھپٹ پڑے یہ بسوں، کرایوں اور دوسری خریداری کیلے آپکی جیب خالی کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ بھلا ھو کشمیری بھاٸی کا کہ جس نے انکے دھوکہ سے بچاۓ رکھا۔
ھمارے بس ٹرمینل کی نسبت یہ بہترین ٹرمینل ھے سنٹرل اٸیر کنڈیشنڈ،ترتیب کے ساتھ ٹکٹ لینے کے کاٶنٹر، بسوں کے سٹاپ نمبر اور ضروریات زندگی کے سامان کی دکانیں بھی موجود ہیں۔ مگر پاکستانیوں پر ھاتھ بھاری رکھتے ہیں۔
مجھے بم کیلیے بہترین لگژری بس ملی۔ تقریباً تین سو کلومیٹر کے فاصلہ پر موجود اس شہر کا کرایہ تین سو بارہ روبے پاکستانی ھے۔ بس کشادہ اور آرام دہ ھے اور سواریاں بہت کم، بس میں سوار ھونے کے بعد ڈراٸیور نے فارسی میں ایک فقرے کو دو بار دہرایا، مجھے سمجھ نہیں آٸی مگر سواریوں نے اپنی سیٹ کے اوپر نیچے اور آس پاس جھانکنا شروع کر دیا یہ میرے لیے حیران کن اور نٸی بات تھی پھر ڈراٸیور نے سمجھایا کہ سیٹ کو چیک کر لیں کہ کوٸی ممنوعہ چیز تو موجود نہیں۔ ریفریشمنٹ میں ایک جوس اور ایک کیک بس چلتے ھی تھما دیا گیا اگر پانی پینا ھے تو خود جا کر بس کے درمیان میں موجود فریج سے نکال کر پی لیں۔ کنڈیکٹر نے ایک پلاسٹک شاپر ہر سیٹ کے ساتھ لٹکا دیا کہ بس میں گند پھیلانے کی اجازت نہیں جوس کیک یا کوٸی اور چیز استعمال کرنے کے بعد ریپر چھلکے وغیرہ اس شاپر میں ڈال دیں۔
مختلف چیک پوسٹوں پر بس سے نیچے اتر کر سامان چیک کرانا پڑتا ہے اور ہر چیک پوسٹ پر موجود اہلکاروں کارویہ بہترین تھا۔ پاسپورٹ دیکھتے ھی اہلکار زور سے بولتا ھے پاکستانی ٹوورسٹ اور سامنے کے اہلکار سامان کو ہاتھ لگاٸے بغیر سینے پر ہاتھ رکھ کر ویلکم ویلکم دہراتے ہیں جبکہ ایرانی یا بلوچ سواریوں کے سامان کو مکمل چیک کیا گیا۔
ایک سٹاپ پر نماز کیلیے رکے تو شاپ کیپر با پردہ خاتون تھیں پانی کی بوتل مجھے ساڑھے بارہ روپے پاکستانی میں ملی۔ بسوں میں کسی سٹاپ کی اطلاع نہیں دی جاتی۔ اسی لیے مجھے بم سے ایک سو اسی کلو میٹر دور جا کر اتارا گیا وہ بھی جب قریبی سیٹ کے ایرانی سے ٹوٹی پھوٹی فارسی میں پوچھا کہ ابھی بم کتنا دور ھے۔ وھاں سے دو سو پاکستانی روپے کی ٹیکسی پکڑی، ٹیکسی میں فرنٹ سیٹ پر ایک مرد اور پچھلی سیٹ پر ایک بزرگ خاتون سوار تھیں۔ سارے راستے میرے ساتھ فارسی میں بات کرتے آۓ اور میری ٹوٹی پھوٹی فارسی سے لطف لیتے رھے۔ ڈراٸیور ایک سو تیس کی سپیڈ سے ڈراٸیو کرنے کے باوجود وٹس ایپ میسنجر سے مسلسل میسج بھی کر رھا تھا۔ اور دونوں ایرانی مطمٸن بیٹھے تھے۔ میں نے انگریزی میں منع کیا پھر فارسی میں جملہ بنا کر کوشش کی مگر دونوں بار میری کہی بات وہ نہیں سمجھ سکا اور میں آیت الکرسی کا ورد کرتا اسکی لاپرواہ ڈراٸیونگ سے خوف کھاتا رھا۔ آخرکار خشک پہاڑی سلسلے اور صحراٶں کے اس سفر کے بعد کھجوروں کے شہر بم آ پہنچا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn