Qalamkar Website Header Image

ویلنٹائین ڈے کا غیر جانبدارانہ جائزہ

ویلنٹائن ڈے شاید ایسے موضوعات میں سے ایک ہے کہ جس پر ہر انسان ہی خواہ وہ اس کے بارے میں کیسی ہی رائے کیوں نہ رکھتا ہو بولنے کو اپنا فطری فریضہ سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ جذبات سے لبریز ہوتے ہوئے ہم اس کی نوعیت اور گہرائی تک پہنچنے سے قاصر رہے اور فقط اپنے مفروضات کو ظاہری حقائق پر غالب لانے کی مکمل کوشش کرتے رہے ہیں۔

ویلنٹائنز ڈے جو کہ نوجوان طبقہ میں غیر معمولی حد تک مقبول ہوچکا ہے اور ایک بڑی تعداد بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ کرتے ہوئے اس کی کسی بھی قسم کی تیاری سے گریز نہیں کرتی۔ مشرق اور بالخصوص پاکستان کے ثقافتی اور مذہبی نقطہ نظر سے ویلنٹائنز ڈے کسی صورت بھی معاشرے کے موافق نہیں رہا اور اس پر کی جانے والی تنقید کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے لیکن جس چیز کو ہم ہمیشہ سے نظر انداز کرتے آ رہے ہیں وہ ہے ویلنٹائنز ڈے سے نوجوانوں کی بے انتہا رغبت اور اب تک ہم اس کشمکش میں خود کو مبتلا نہ کر سکے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جو اس دن کی اس قدر پذیرائی کا سبب بن رہی ہے۔

اس کے علاوہ کوئی حقیقت بظاہر قابل ذکر نہیں کہ ویلنٹائنز ڈے منانے والوں میں کثیر تعداد غیر شادی شدہ جوان لڑکے اور لڑکیوں کی ہے کہ جو یا تو ابھی اس قابل نہیں کہ رشتہ ازدواج کا انتخاب کر سکیں یا پھر والدین اور معاشرے کی جانب سے روایات کی پابندیوں کی رکاوٹوں کا شکار ہیں اور فقط اس وقتی محبت کے رشتے پر اکتفا کر چکے ہیں اور شاید اپنی زندگی کو باقاعدہ اصول کے تحت کسی راہ پر گامزن دیکھنے سے عاجز ہیں۔

بعد از بلوغیت ہر انسان اپنے وجود میں مقابل جنس کے متعلق احساسات و خیالات کو جنم دیتا ہے جو کہ کسی قباحت کا باعث نہیں بلکہ ایک قدرتی حقیقت ہے کہ جس کی تکمیل کے لئے کوئی بھی مخصوص راستہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثلاً اگر کسی انسان کو اس کی جنسی ضروریات کی تکمیل کے موثر ذرائع میسر نہ آئیں تو وہ اس کے لئے کسی بھی حد تک کسی بھی راستے کا انتخاب کر سکتا ہے جو کہ اکثر انتہائی منفی نتائج کے حصول کا سبب بنتا ہے۔ یہ بات انسان کی ذاتی ترجیحات پر منحصر ہے کہ وہ کس ذریعے سے اپنی جنسی ضروریات کو پورا کر سکے۔ عموماً اس چیز کو برا تصور کیا جاتا ہے کہ بچوں کے جنسی معاملات پر توجہ دی جا سکے لیکن شاید اگر ایسا ممکن ہو سکے تو والدین اور اولاد کا رشتہ مزید مضبوط اور شفاف ثابت ہو سکتا ہے کہ بچوں کی فطرت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ماں باپ سے فقط اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جس کے متعلق ان کو یقین ہو کہ وہ اس کو سمجھنے کی کوشش کریں گے.

یہ بھی پڑھئے:  مسلسل خوف - فاطمہ عاطف

لیکن اگر ایسا نہ ہو تو چاہے لاکھ والدین اس کی انفرادی زندگی کے حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کریں لیکن ناکام رہیں گے اور اکثر والدین اس کی شکایت بھی کرتے ہیں کہ بچے ان کے ساتھ رابطہ برقرار نہیں رکھنا چاہتے لیکن کبھی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ مخصوص موضوعات پر ان کے مزاج کی تلخی ہی بچوں کی اس دوری کا باعث ہے۔ لہذا یہ بات تو یقیناً واضح ہوچکی ہے کہ موجودہ حالات اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ اگر ایسے ثقافتی طریقوں کو ہم اپنے معاشرے سے نکالنا چاہتے ہیں تو یہ بات تصور کی حدود سے باہر نکال دینی چاہیے کہ دور حاضر میں جوانی کے عالم میں کسی بھی لڑکے یا لڑکی کی جنسی خواہشات کو روایات کے زیر اثر لایا جاسکتا ہے اور اس کے لئے ایسے تمام مسائل کی وجوہات کے حل کے لئے کوئی متبادل طریقہ اپنانا ہی ضروری ہے۔

ویلنٹائنز ڈے پر تنقید کے تیر برسانے والے اکثر والدین نمایاں مذہبی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے ہیں لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے قول و فعل میں شدید تضاد کو جگہ دیتے ہیں اور فقط مذہب کا لبادہ اوڑھ کر قدیم روایات کے پابند ہیں۔ یہی والدین اولاد کو ہر شے مہیا کرنے کے باوجود اولاد کی زندگی کے سب سے اہم پہلو سے ہمیشہ بےخبر معلوم ہوتے ہیں اور اس بات کو خود کے لئے عیب سے زیادہ برا تصور کرتے ہیں کہ وہ روایتی طریقے سے ہٹ کر اپنی اولاد کو رشتہ ازدواج میں دیکھ سکیں۔ واضح ہے کہ ایسے والدین کو چاہیے کہ جہاں وہ بچوں کے لئے دیگر تمام آسائشات مہیا کرتے ہیں وہیں ان کے فطری تقاضوں پر بھی گہری نظر رکھیں اور ان تمام کو بھی اتنی ہی اہمیت سے نوازیں جتنی دیگر دنیاوی معاملات کو دی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  فیس بک اور ادبی تنقید

ان تمام تر مسائل کا واحد حل یہی ہے کہ والدین کی جانب سے اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ازدواجی زندگی کا تعین کرنے کی مکمل آزادی نوجوانوں کو حاصل ہو اور چونکہ زمانے کی جدت اور عقل و فہم کے استعمال نے اکثر قدیم روایات کو غیر منطقی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا ہے اور دور حاضر کا جوان بھی ان پر مزید عمل کرنا جہالت کی دلیل سمجھتا ہے۔

اس لئے اب ممکن نہیں کہ والدین بچوں کو اسی طریقے پر عمل کرتا دیکھ سکیں کہ جس پر وہ عمل کر چکے ہیں۔ یہاں یہ بات کہنا ہرگز مقصود نہیں کہ والدین اولاد کے معاملات سے خود کو بے دخل کر لیں بلکہ اس قدر اہتمام ضرور رکھیں کہ بچے اپنی ذاتی زندگی کے پہلو بھی ماں باپ کے سامنے رکھ سکیں اور یہ اس وقت ممکن ہے کہ جب انسان ہر طرح کی غیر عقلی روایت سے قطع نظر ہوتے ہوئے اولاد کے مسائل میں اپنی دلچسپی کا اظہار کرے ورنہ آئندہ آنے والے سالوں میں ماں باپ اس بات کی شکایت کرتے نظر آئیں گے کہ بچے ان سے اس طرح مانوس نہیں رہے کہ جیسا حق ہے اور اگر ویلنٹائنز ڈے کو مغرب کی یلغار سمجھتے ہوئے اس سے نجات ہی چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ دقیق روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے رشتہ ازدواج کو عام کرنے کے لئے ایسے حالات مہیا کریں کہ جو آنے والی نسل کے لئے پر وقار ہونے کا سبب بن سکیں ورنہ نہ تو ہم تین میں رہیں گے اور نہ تیرہ میں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس