ذہن اور دل کا کمبی نیشن اگر مستقل مزاجی کے ساتھ متوازن ٹریک پہ چلتا رہے تو خوشیاں بے شمار یہ تو ایک سائینٹفک نظریہ ہوگیا۔ آئیں ہم اس سوال کی کھوج لگاتے ہیں کہ خوش کیسے رہا جائے؟
زندگی سبزی منڈی سے خریدی گئی ایک فروٹ کےکاٹن کی طرح ہے جس میں خراب اور ستھرا فروٹ موجود ہونے کے یکساں چانسز ہیں ایسے ہی زندگی میں خوشی اور غمی کے وجود سے بالاتر ہوکر سوچنا بے وقوفی کےسوا کچھ نہیں ہر انسان خوشی و غمی کی کیفیت سے کبھی نہ کبھی گزرتا ہی رہتا ہے لہذا ہر وقت خوشی و ناخوشی کی کیفیت کے لیے الرٹ رہیں کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے البتہ غمی کا اسٹال جگہ جگہ پہ لگا ہوا ہے جبکہ مارکیٹ میں ویلیو کے اعتبار سے فی الوقت خوشی کے گاہک بے شمار ہیں ان کسٹمرز کو خوشیاں تقسیم کرنی ہیں لہذا اسی طرف اپنی صلاحیتیں آزماتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خوشی ملتی کب ہے؟
کائناتی تبدیلیاں جب مزاج کے مطابق وقوع پذیر ہوتی ہیں تو خوشی ملتی ہے۔ جبکہ مزاج کو کنٹرول میں لانے کے لیے اپنے مزاج کی نفیسات سمجھنا بہت ضروری ہے جو انسان اپنی نفسیات نہیں سمجھ پاتا، اس کی حالت "رینٹ کی کار” جیسی ہوتی ہے ، جس کا مالک کوئی ہوتا ہے ، جبکہ ڈرائیور کوئی ہوتا ہے۔
میرے آج تک کے ذاتی تجربات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ خوشی ایک کیفیت کا نام ہے، یہ کیفیت آپ کے ذہن نے وجود میں لانی ہےتب ہی خوشی آپ کو مل سکتی ہے اور وہ کیسے ملے گی؟
کبھی بچپن کی شرارتیں یاد کریں، آپ ناچاہتے ہوئے بھی ہنس پڑیں گے ۔وہ اس لیے کہ ذہن جب ان معصوم یادوں کی مہمان نوازی کرتا ہے تو خوش ہوجاتا ہے۔
ایک مثال عرض کرتا ہوں کہ ایک دن اماں جی سے سوال کیا اماں جی بتائیں جب ہمارے سب سے بڑے بھائی پیدا ہوئے تھے تو آپ کی خوشی کا عالم کیا تھا؟ اماں جی وہ وقت یاد کر کے خوشی سے یوں بھر گئیں جیسے آم پک جانے کے بعد "رس” سے بھر جاتا ہے ۔
کہنے لگیں بیٹا جب تیرا بڑا بھائی پیدا ہوا تھا تو مجھے یوں لگا جیسے کائنات کی ساری خوشیاں صرف میرے لیے ہی ہیں۔
میں نے پھر بیٹھے بیٹھے یہ سوال جڑ دیا ؟
اماں اس کے علاوہ آپ کو خوشی کب ملتی ہے ؟ بولیں جب اپنی اولاد کی اچھائیاں، خوبیاں کسی غیر سے سنتی ہوں تو اپنی بیماریوں ، الجھنوں ،تنگیوں اور پریشانیوں کا بوجھ اتار کر کسی خودکار مشین کی طرح خوشی کی ڈگر چل نکلتی ہوں ۔
میں نے پوچھا مطلب خوشی کا سبب آپ کے لیے ہر اچھائی بھی ہے ؟
سوال پھر بڑا تلخ تھا کہ اماں کسی کی اولاد جب وہی اچھا کام کرتی ہے تو آپ خوش کیوں نہیں ہوتیں؟ کہنے لگیں ارے بیٹا !
جتنی خوشی اس کی ماں کو ہوتی ہے اتنی خوشی مجھے بھی ہوتی ہے جب تم وہی کام کرتے ہو بس حساب برابر۔
مجھے ان کی باتوں سے یہی جواب ملا کہ خوشی کا تعلق تو بے شمار چیزوں سے ہے ، یہ بہت ساری طریقوں سے حاصل کی جاسکتی ہے لیکن جو خوشی نیک کارناموں اور کاموں سے ملتی ہے ،اس کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔
اماں جی کو پوچھا بتائیں خوش کیسے رہا جائے ، کہنے لگیں، جب تمہارے پاس اچھی یادیں نہیں ہوں گی توخوشی کیسے حاصل کرو گے، اچھی یادوں کا تعلق "ماضی” سے ہے اور یہ یادیں” حال” سے وجود میں آتی ہیں سب سے پہلے اپنے حال سے خوش رہو پھر اپنا” حال” خوش حال بناؤ، تو خوشگوار ماضی بنتا جائے گا ساتھ ہی اپنے خوبصورت تجربات سے اپنی مختصر زندگی کے لمحات یادگار بناتے جاؤ تمہارے پاس خوشیوں کی کمی نہیں ہوگی اور پھر یہ سوال اپنی موت خود مر جائے گا کہ
"خوش کیسے رہا جائے”؟
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn