سپریم کورٹ نے تین کے مقابلے دو کی اکثریت سے ججز ٹرانسفر کے خلاف دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
ججز ٹرانسفر کیس:اٹارنی جنرل کی جانب سے عمران خان اور دیگر درخواست گزاروں کی درخواستوں کو ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد بلال اور جسٹس صلاح الدین پنہور نے ٹرانسفر کے حق میں فیصلہ دیا، جبکہ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اختلافی نوٹ میں ٹرانسفر کو کالعدم قرار دیا۔
عدالت نے اکثریتی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ جسٹس سردار سرفراز ڈوگر بطور قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔ یہ معاملہ کہ تبادلہ عارضی ہے یا مستقل، صدرِ مملکت کو واپس بھجوایا جاتا ہے۔ تبادلہ کیے گئے ججوں کی سینیارٹی کا معاملہ بھی صدر کے سپرد کیا گیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 200 کی ذیلی شق (1) کے تحت صدرِ مملکت کو ججز کے تبادلے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ اختیارات جوڈیشل کمیشن سے بالکل مختلف اور علیحدہ ہیں، نہ تو ایک دوسرے پر سبقت رکھتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کو کالعدم کرتے ہیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ عارضی یا مستقل تبادلہ نئی تقرری نہیں سمجھا جا سکتا، کیونکہ یہ اختیار آئین سازوں کی جانب سے صدر کو دیا گیا ہے، جس پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔
مزید کہا گیا کہ ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں جج کا تبادلہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب وہ منظور شدہ ججز کی تعداد کے اندر ہو۔ اس عمل کو نئی تقرری نہیں سمجھا جائے گا۔ آرٹیکل 200 کا اطلاق صرف تبادلوں (عارضی یا مستقل) پر ہوتا ہے، جبکہ ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔
سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک چیف جسٹس اور بارہ ججز تعینات کیے جا سکتے ہیں، جن کا تعلق مختلف صوبوں اور علاقوں سے ہو سکتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں تقرری صرف نئی تقرری کے ذریعے ہی ہو۔ ایسا تصور آئینی روح کے منافی ہوگا۔
عدالت نے مزید قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت صدر کو ججز کے تقرر یا تبادلے کے اختیارات لامحدود یا غیر مشروط نہیں ہیں۔ کسی بھی جج کو اُس کی رضامندی کے بغیر ٹرانسفر نہیں کیا جا سکتا، اور یہ عمل چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت کے بغیر بھی ممکن نہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ صدرِ پاکستان کی جانب سے یکم فروری 2025ء کو جاری کردہ تبادلے کا نوٹیفکیشن آئینی دائرے میں آتا ہے اور اُسے غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہائی کورٹ ججز کے مابین سینیارٹی کے تنازعات متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ تاہم، یہاں معاملہ دوسرے ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلوں کا ہے، اس لیے سینیارٹی کا تقابلی مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ عدالت نے یہ معاملہ بھی صدر کو بھجوا دیا ہے تاکہ وہ سینیارٹی اور تبادلے کی نوعیت (عارضی یا مستقل) کا فیصلہ کر سکیں۔
اختلافی فیصلہ جسٹس نعیم اختر افغان نے پڑھ کر سنایا، اور فیصلے کے آخر میں دو اشعار بھی پڑھے۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ججز کے تبادلے کے خلاف درخواستیں منظور کی جاتی ہیں، اور متعلقہ نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ اختلافی رائے میں یہ بھی کہا گیا کہ صدر مملکت کو عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کا اختیار حاصل نہیں۔ درخواست گزاروں کے مطابق، اُنہیں عدلیہ میں مداخلت پر نوٹس لینے کی سزا دی گئی ہے۔


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn