Qalamkar Website Header Image

قانون کی حاکمیت – سمیرا کیانی

sumaira-kyani’’قانون کی حکمرانی برقرار رکھنا‘‘UP HOLDING THE RULE OF LAWکا اردو ترجمہ ہے۔موضوع میں غور طلب نکات دو ہیں۔پہلا قانون کی حکمرانی اور دوسرا اسے برقرار رکھنا۔یعنی ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی موجود ہے اور اب ہمیں اسے قائم رکھنا ہے ۔زندہ رکھنا ہے اور مستقل بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔قانون کی حکمرانی کامطلب یہ ہے کہ امیر اور غریب ،شاہ اورگدا،مسلم اور غیر مسلم قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں ہے۔قانون خاص وعام سب کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ قانون کی پابندی کرے۔
قانون کی پابندی کے لئے ملکی قوانین سے آگاہی ضروری ہے۔مگر بدقسمتی سے ہمارے ہم وطن اپنی کم علمی کے سبب عموماًخسارے میں رہتے ہیں۔انہیں نہیں معلوم کہ قانون انہیں حقوق کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے عام شہری کے پاس وسائل کم اور مسائل زیادہ ہوتے ہیں۔اس کی تھانوں اور کچہریوں تک رسائی مشکل ہوتی ہے۔وہ ایف۔آئی۔آر درج نہیں کرا سکتا۔اس لئے ہر ظلم کو سہتے ہوئے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیتا ہے۔یہ سو چ کر کہ
قریب ہے یارو روزِ محشر، چھپے گا کشتوں کا خوں کیونکر

جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
مجرم کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لئے اور قانون کی بالادستی کے لئے عوام کو باشعور کیا جائے۔ انہیں سمجھایا جائے 
عدل و انصاف فقط حشر پر موقوف نہیں

 زندگی خود بھی گنا ہوں کی سزا دیتی ہے
توکل کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کے لئے اسے کوشش و جستجو پر آمادہ کیا جائے۔ تھانوں اور کچہریوں کی راہ دکھائی جائے ۔تدبیر اختیار کرنے پر مائل کیا جائے۔پھراس کے بعد نتائج اللہ پر چھوڑے جائیں۔جیسے ایک صحابی،ؓ رسولِ ؐخدا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے پوچھا تمہارا اونٹ کدھر ہے؟صحابی نے عرض کیا ’’اللہ کے توکل پر چھوڑ آیا ہوں۔‘‘
آپؐ نے فرمایا’’ پہلے اس کا گھٹنا باندھو پھر توکل کرو۔‘‘
اس لئے ہمارا خواب ،ہماری خواہش اور ہماری تمنا یہ ہے کہ قانون کی حاکمیت کو برقرار رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے اور عام
آدمی کے دکھوں کا مداوا کیا جائے۔
پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے۔اسے اسلامی اصولوں کی کارفرمائی کے لئے تشکیل دیا گیا ہے۔ہم مسلمان اللہ کو اپنا معبود مانتے ہیں۔اس اللہ کو جو عادل ہے۔خود بھی عدل کرتا ہے اور اپنے بندوں کو بھی عدل کا حکم سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۳۵ میں یوں دیتا ہے
’’ اے ایمان والو !ہمیشہ اللہ کی خاطر حق اور انصاف کی گواہی دینے کے لئے کھڑے رہا کرو،خواہ وہ گواہی تمہاری اپنی ذات،والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ جاتی ہو۔‘‘
اگر ہمارے رشتے دار مالدار ہوں تب بھی اور غریب ہوں تب بھی ہر صورت میں اللہ ہی کو اولیت حاصل رہے گی ۔ہمیں اس کی خاطر حق اور انصاف پر قائم رہتے ہوئے سچی گواہی دینی پڑے گی۔
پھر سورۃ مائدہ کی آٹھویں آیت میں فرماتا ہے’’انصاف کرو یہ بات تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔‘‘
اسی سورۃ کی آیت نمبر ۴۲ میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو حکم دیتا ہے
’’اے نبی ؐ ! جب آپؐ فیصلہ دیں تو ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ صادر فرمائیں۔‘‘
حبیبؐ کبریا نے اپنے ہر عمل سے یہ ثابت کیاکہ ’’ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں ۔‘‘
آپؐ نے قبیلہ بنی مخزوم کی ایک خاتون کو جو چوری کے جرم میں پکڑی گئی تھی۔معاف نہ کیا بلکہ اس کے لئے آئی ہوئی سفارش کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ’’تم سے پہلے یہود بھی اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کسی طاقتور سے جرم ہوتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کوئی کمزور شخص جرم میں پکڑا جاتا تو اسے سزا دیتے۔قسم ہے ا س ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔اگر میری بیٹی فاطمہؑ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ ضرور کٹواتا۔‘‘
گویا رسولؐ ہمیں آگاہ کر چکے کہ قانون کی پاسداری نہ کرنے والی اقوام کو ہلاکت سے بچایا نہیں جا سکتا۔بقول شاعر

یہ بھی پڑھئے:  سوشل میڈیا کا مثبت و منفی استعمال | ممتازشیریں

ہماری عقل بھی قائل ہے اس کی یہی کچھ کہہ رہا ہے دل ہمارا
اگر ہے ملک میں انصاف زندہ بہت روشن ہے مستقبل ہمارا
عہدِ فاروقی میں قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کا یہ عالم تھا کہ عدالتوں کے لئے خاص عمارتیں نہیں تھیں بلکہ مسجدوں پر اکتفا گیا تھا اور نشۂ  عدل ومساوات سے مخمور مسلمان دورانِ خطبہ بھی خلیفۂ وقت پر کس طرح معترض ہوتے تھے
اس ضمن میں حضرت علیؓ کا یہ فرمان بھی قابلِ غور ہے ’’ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے نا انصافی کا نہیں۔‘‘
عمرِ ثانی حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ بھی عدل و انصاف کا پیکر تھے۔انہوں نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے خاندان کے دستِ راست مسلمہ بن عبدالملک کو اس لئے بیٹھنے کی اجازت نہیں دی کہ گرجے کے منتظمین جن کے خلاف انہوں نے مقدمہ دائر کیا تھا وہ قاعدے کے مطابق کھڑے تھے۔نہ صرف یہ انہوں نے فیصلہ بھی مسلمہ کے خلاف کیا۔
اپنے ان دینی رہنماؤ ں کی پیروی ہمارا فرض ہے تاکہ ہم عدل وانصاف پر مبنی ایک ایسا معاشرہ تخلیق کر سکیں جس میں عام آدمی ،غاصب اور ظالم سے خوفزدہ ہو کر سسکیاں بھر بھر کر اور گھٹ گھٹ کر زندگی بسر نہ کرے۔بلکہ مقتدر اور جابر طبقے کے خلاف عدالتوں میں آکر آواز بلند کر ے اور قانون کی پناہ میں آئے۔عدلیہ قانون کی حاکمیت کی محافظ ہے۔یہ روشن روایات کی حامل ہے۔اس نے ہر دور میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کئے ہیں۔شہریوں کی آزادی اور حقوق کا تحفظ کیا ہے۔اس کی آزادی کی روایات بہت پرانی ہیں۔ہمارے موجودہ آئین میں ان روایات کو تسلیم کیا گیا ہے اور برقرار بھی رکھا گیا ہے۔
ہمارے ملک کی بقا اسی میں ہے کہ یہاں ایسی فضا قائم کی جائے جہاں عدلیہ آزاد رہے اور قانون کی بالا دستی برقرار رہے۔ ہر فرد قانون کی پابندی کرے۔قانون کا احترام کرے ۔
اگر ہم ایسی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو نہ صرف عالمی سطح پر ہمارے وقار میں اضافہ ہو گا بلکہ عام آدمی بھی سکھ کا سانس لے سکے گا۔استحصال سے محفوظ رہے گا تو اس کی مایوسی اور بددلی میں کمی واقع ہوگی۔مہنگائی ،بے روزگاری،بجلی کی کمیابی،گیس کی نایابی اور دہشت گردی جیسے مسائل ختم ہو جائیں گے۔رشوت، سفارش،بدعنوانی اور اقربا پروری کی بجائے میرٹ کو فروغ ملے گا۔مجرمانہ اور متشدد رویوں کو ختم کیاجا سکے گا۔
پولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے عام آدمی انصاف سے محروم رہتا ہے۔بااثر افراد تفتیش سے بچ جاتے ہیں ۔سزا اور جزا کا خوف ختم ہو جاتا ہے۔جرائم اور زیادتیاں بڑھتے ہیں۔
معاشرے میں اگر عدل دستیاب نہ ہو معاشرے میں کرائم ضرور ہوتے ہیں
سزا ملے تو برائی پنپ نہیں سکتی سزا نہ ہو تو جرائم ضرور ہوتے ہیں
قانون کی حکمرانی،آئین کی بالا دستی اور انصاف کی فراہمی سے معاشرہ بدل جاتا ہے۔جمہوری نظام مستحکم ہوتا ہے۔ہر شخص کی جان ،
مال اور عزت محفوظ رہتی ہے۔قانون کی حفاظت سے شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں ۔عوام کا پولیس،عدالتوں اور قوانین پر اعتماد
بڑھتا ہے۔کمزور،بے بس اور لاچار آدمی دل سے قانون ،عدالتوں اور ججوں کا احترام کرتا ہے ۔ان سے محبت کرتا ہے۔
قانون کی بالا دستی قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مقدمات کو کئی کئی سال تک انتظار کی سولی پر لٹکانے کی بجائے جلد از جلد ان کا فیصلہ کیا جائے۔پاکستان کا آئین ہر شہری کو فوری اور سستے انصاف کی ضمانت دیتا ہے۔اگر وکلاء اپنی فیسیں کم رکھیں اور پولیس اپنے فرائض دیانت داری سے انجام دے تو عام آدمی کے لئے انصاف کا حصول آسان اور سستا ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھئے:  جمہوریت کس مرض کی دوا ہے؟

 

حالیہ بلاگ پوسٹس