Qalamkar Website Header Image

ملاقاتیں کیا کیا – صدیف گیلانی

mulaqaten-kia-kiaمشہور اور نامور صحافی الطاف حسن قریشی صاحب کی کتاب زیر مطالعہ ہے۔ قریشی صاحب پاکستانی سیاست کے مدو جزر کے عینی شاہد ہیں۔الطاف حسن قریشی صاحب کا صحافت سے رشتہ پچھلی چھ دہایؤں سے ہے۔ان کی نئی کتاب ملاقاتیں کیا کیا مشہور شخصیات کے انٹرویوزپہ مشتمل ہے۔ 40سال پہلے کے انٹرویوزکیسا تھ تفصیلی حواشی حاضر ایسے جڑے ہیں جن میں آج کے مسائل کا حل اور مستقبل کا حقیقی چہرہ بھی نظر آتا ہے۔ اس کتاب میں تیس عہد ساز شخصیات کے انٹرویوز ہیں جنھوں نے اس ملک کو بگاڑنے اور سنوارنے میں برابر کردار ادا کیاہے۔ تاریخی حقائق ،خوبصورت نثر اور چست جملے قاری کو تسکین بخشتے ہیں۔ تاریخی کتب عام قاری کے لئے عموماً بورنگ ہوتی ہیں۔ تاریخ کی سچائیاں اپنی جگہ لیکن خوبصورت جملے اس کتاب کو مزین کررہے ہیں۔ یہ کتاب آپ کو مولانا مودودی کے کفر اور اسلام کے سفر کی داستان سناتی ہے۔ کیسے مولانا ڈیڑھ بر س خدا کے منکر رہے بعد میں ایسے مومن ہوئے کہ تاریخ ان پہ رشک کرتی رہے گی۔ بھٹوصاحب کواردو ڈائجسٹ کیلئے دیے گئے انٹرویوکی پاداش میں کابینہ سے کیوں نکالا گیا۔ضیاء الحق اس الزام کی سچائی بتائیں گے کہ جب فلسطین میں آپریشن کیا تھا تب آدمی صرف دوتھے۔ الطاف حسن قریشی صاحب جو ضیاء الحق کی کابینہ میں وزیر اطاعات بننے والے تھے ایک انٹرویو کی وجہ سے جیل کی سیر کی۔ کیسے سید فضل نے ایک مہینہ قبل فوجیوں کی شہادت کی پیش گوئی تھی اور جس دن طیارہ پھٹا تو سید فضل نے ضیا ء الحق کو سفر کرنے سے منع کیا ۔ احمد یار بلوچ خان آف قلات کو قائداعظم محمد علی جناح نے کیوں کہا ۔ میرا اختتام قریب ہے۔ میرے بعد مسلم لیگ قائم نہ رہ پائے گی ۔کیوں جسٹس اے۔کے کارنیلیس اس بات پہ افسردہ تھے کہ یہاں اردو زبان کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔قارئین جسٹس صاحب کے اس جملے کا لطف اٹھائیں جو انہوں زبان کے بارے میں کہا۔ کسی زبان میں چند جواب مضمون لکھنے سے زبان نہیں آتی ۔ وہ اسی وقت آسکتی ہے جب اس میں دوسرے مضامین بھی پڑھائے جائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسانی علوم بڑی آسانی سے اردو زبان میں پڑھائے جاسکتے ہیں۔ جسٹس کارنیلیس واحد جج تھے جنھوں نے مولوی تمیزالدین کی درخواست میں اختلافی نوٹ لکھا تھا جبکہ عدالت نے مارشل لاء کو آئینی کہا تھا ۔یہ کتاب آپ کو پاکستان کی بہت ساری چھپی ہوئی کہانیوں سے آشکار کرائے گی۔ مسٹراے کے بروہی نے مشتاق گورمانی اور زیڈ اے سلہری کا مقدمہ جیتا جس میں نواب مشتاق خان گورمانی کو ریاست بہاولپور کے وزیر اعظم کی حیثیت سے بھارت میں شامل ہونے کی پیش کش کی گئی تھی اور عدالت میں ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط پیش کیا گیا تھا۔ آپ کو بتاتا چلوں اے ۔کے بروہی پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا وکیل ہے۔ ہم وکلاء کو اے کے بروہی جیسا بڑا وکیل بننے کا اساتذہ جذبہ دیتے ہیں۔ کیوں کہ اے کے بروہی کی لائبریری سپریم کورٹ آف پاکستان کی لائبریری سے بڑی لائبریر ی تھی وہ فیس مقدمہ کی نہیں وقت کی لیتے تھے ،اتنا وقت ٹریفک میں پھنسے رہے ،اتنا وقت لائبریری میں کیس کی تیاری کی اتنا وقت عدالت میں بحث کی یہ فیس بنتی ہے۔ ابھی دے دیں اور یہ کتاب بتائے گی بروہی صاحب کیسے وکالت سے نفرت کرتے ہیں۔استاد بننے کے خواہش مند تھے صبح نیند سے جاگے توغلام محمد نے بتایا کہ تمہیں وزیر بنا دیا گیا ہے۔ 1954میں وزیر بنے سیاست کا شوق نہ تھا اس لیے 1954میں ہی استعفیٰ دے دیا ۔بروہی کی سچی پشین گوئی کہ مجیب الرحمن کے دشمن دونوں طر ف ہیں۔ڈھاکہ گیا تومارا جائیگا یہاں رہا تو زندہ نہیں بچے گا۔ پروفیسر حمید خان عیسایت کے اس لیے معترف تھے کہ اخبار سٹرک پر پڑاہوتاہے۔لوگ خودہی پیسے رکھ دیتے ہیں۔ اخبار لے جاتے ہیں۔ کیسے جسٹس حمود الرحمن کو عیسائی فادر نے پیٹا مگر جب تاج محل کو دیکھا توپوری کلاس کے سامنے معافی مانگی کہ تاج محل وکٹوریہ محل سے زیادہ خوبصورت ہے۔ ملا فضل حق نے جب سہر وردی ، خواجہ ناظم الدین اور قائداعظم کے خلاف مقدمہ کیا تو حمود الرحمن قائداعظم کی طرف سے پیش ہوئے۔ چیف جسٹس منیرنے مارشل لاء کو آئینی قراردیا تھا لیکن یہ جسٹس حمودالرحمن تھے جنہوں نے عاصمہ جیلانی کیس میں مارشل لاء کو غیر آئینی قرار دیا لیکن ضیا ءا لحق کے مارشل لاء کو اے کے بروہی نے بعد میں آئینی ثابت کیا تھا ۔ اسد عمر ، زبیر عمر، منیر کمال کے والد جنرل عمر کے کارنامے یہ کتاب آپ کو بتائے گی ۔ حمود الرحمن کمیشن آپ کو ایوان صدر سے چکلالہ کی طرف سفر کی داستان سنائے گا ۔مولانا ظفر احمد انصاری کیوں روس کے اشتراکی انقلاب اور امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کو یہود کی پیداوار سمجھتے تھے ۔قرارداد لاہوراور قرارداد دہلی کی داستان اور حقیقت اس کتاب میں ملے گی ۔مشہور فرانسیی ناول اور افسانہ نگار روکٹرہیوگو ایک الجزائری مسلمان سے مار کھانے کے ٹھیک پانچ ماہ بعد محسن انسانیت کی ہرزہ سرائی پہ مشتمل کتاب منظر عام پہ لاتا ہے ۔قدرت اللہ شہاب وہ منظر بتاتا نظر آئے گا فاقہ زدہ مسلمان مر رہا ہوتا ہے گدھ اس کا پاؤں نوچ رہا ہوتا ہے لیکن انگریز اس لئے منع کرتا ہے اس نے فوٹو بنانی ہیں ۔ڈپٹی ہوم سیکرٹری قدرت اللہ شہاب مسلمانوں کے قتل عام کی منصوبہ بندی کی رپورٹ چوری قائد اعظم کو دیتا ہے لیکن مجسم اصول کے مصداق قائد اس کو دوبارہ اس طرح کے فعل سے منع کرتے ہیں لیکن اڑیسہ کے وزیر اعلیٰ شری ہری کرشن مہتاب اس فعل سے آگاہ ہونے کے باوجود صرف اتنا کہتے ہیں دوبارہ اس طرح مت کرنا۔۔احباب بڑا پن اسے کہتے ہیں۔ سب سے دلچسپ واقعہ اس کتاب میں یہ ہے کہ قدرت اللہ شہاب کے والد عبداللہ کو سر سید احمد خان نے لاتوں ،مکوں ،تھپڑوں اور جوتوں سے خوب پیٹا جو بعد میں گلگت کے گورنر بھی رہے ۔
یہ کتاب طلاب سیاست و صحافت کے لئے خزانہ سے کم نہیں ۔ ستر کی دہائی کا مکمل احوال اور اسکی تاریخ سے آگاہی حاصل کرنا اس کتاب کے بغیر ممکن نہیں ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

ماتم ایک عورت کا (ناول) – تبصرہ

دوستووئیفسکی کے ”جرم و سزا“ نے وحشت ذدہ کر دیا تھا۔ جیل میں ہونے والے مظالم کا پہلا تعارف تو ”زندان کی چیخ“ کے کچھ حصے تھے۔۔ طاہر بن جلون نے

مزید پڑھیں »

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »