تحریر: مریم ثمر، لاہور
ایک سال کا بیٹا جس کا باپ پچھلی سردیوں میں خون تھوک کر مر گیا تھا‘ جاگ کر تنگ کرنے لگا تو مستانی نے اسے نشے کی پڑیا سنگھادی اور وہ پھر اونگنے لگا۔ بیٹے کے ساتھ نا بینا بوڑھے بابا کا بوجھ بھی بے فکری سے اٹھا رکھا تھا۔ بیٹے کو کندھے پر ڈالے وہ سڑک کنارے کھڑی تھی اور اس کی نگاہیں دائیں بائیں مسلسل حرکت میں تھیں۔
نام کی مستانی چال کی بھی مستانی تھی اوپر سے شوہر کو مرے ایک سال کا وقفہ اور منھ زور جوانی۔ تھی توایک پیشہ ور بھکارن‘ میلے کچیلے پیوند لگے کپڑوں میں بھی اجلے کپڑوں والے مردوں کی نگاہوں کا میل الگ سے اپنے بدن پر محسوس کیا کرتی تھی۔ چلتی تو دوپٹے کا ایک پلو سر پر ٹکا رہتا اور دوسرا زمین پر جھاڑو دیتا چلا جاتا ہفتہ بھر میں ایک بار نہاتی تو نہاتی ورنہ عموماً اس کے بدن سے بدبو کے بھبھوکے اٹھتے ۔ چلتے پھرتے کھچڑی بنے بالوں کو کھجلاتی رہتی۔
وہ ماں تو تھی لیکن ایک سال کا نشے میں دھت بیٹا اس کی معاشی ضرورت بھی تھا۔ کندھے پر اٹھائے اٹھائے تھک جاتی تو اسے کبھی دائیں اور کبھی بائیں طرف کولہے پر جمادیتی اور اس کا ڈھلکا سر مستانی کی چال کے ساتھ ادھر ادھر جھولنے لگتا۔
کالج میں چھٹی ہوچکی تھی۔ سامنے رش بڑھ رہا تھا۔ لال بتی کے روشن ہونے پر اس نے اپنے بابا کا ہاتھ تھاما اور بچے سمیت سڑک پر اتر گئی۔ دوسرے کنارے پہنچ کر اس کے قریب سے ایک موٹر سائیکل والا لہراتا ہوا گزرا اور وہ بے ساختہ بولی ۔
ابے او ….. کبھی ماں کے کولہوں پر بھی ہاتھ پھیر کر دیکھ ۔“ بہن کے جسم پر بھی ہاتھ لگائیو ۔ آخ خخ ۔۔۔ تھو۔ اس نے برا سا منہ بنا کر زمین پر تھوک دیا ۔
اس کی زہریلی اونچی آواز ٹریفک کے شور میں دب گئی تھی۔ اس کا اندھا بوڑھا باپ بھی اس کی آواز نہیں سن سکا تھا۔ وہ دل ہی دل میں تلملا رہی تھی لیکن سڑک پار کرنے کے بعد اسے اپنے شکار کی تلاش کی فکر تھی‘ اس لیے دو چار زیر لب گالیوں پر اسے اکتفا کرنا پڑا۔ اس کے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ اگر کوئی اور وقت ہوتا اور بابا ساتھ نہ ہوتا تو وہ وہیں سڑک کے بیچوں بیچ اس بے غیرت کو للکار کر ننگا کردیتی۔
طلبہ بس کے انتظار میں تھے۔ اس کی پیشہ ور نگاہیں جلد اپنے شکار کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ چہروں پر زندگی کی چمک اور سرشاری لیے لڑکا اور لڑکی کچھ فاصلے پر ایک دوسرے کے بے حد قریب کھڑے سرگوشیاں کررہے تھے۔ اس نے انتہائی مسکین صورت بنائی‘ چہرے پر بے چارگی کی تصویر سجائی‘ آواز میں درد کی آمیزش کی‘ اور ناخوش گوار واقعے کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے ان کے سامنے اپنے بابا سمیت جا کھڑی ہوئی۔ منھ کھولنے سے قبل بیٹے کو ایک کولہے سے دوسرے کولہے پر منتقل کیا جس سے اس کی گردن بالکل ہی ڈھے سی گئی۔
”اے بی بی اللہ جوڑی سلامت رکھے۔ اللہ خوشیاں دکھائے‘ چاند سا بیٹا دے۔ کچھ اس غریب لاچار کی مدد کردو۔“
بے وقت کی اس اچانک مداخلت سے دونوں گڑبڑاگئے۔ مستانی نے نوجوان لڑکی کا دوپٹا پکڑ لیا تھا اور اس کی زبان سے رٹے رٹائے جملے خود بخود ادا ہورہے تھے۔ لڑکی جھنجھلاہٹ کا شکار ہوگئی۔ دوپٹا جھٹک کر بولی۔ ”اپنے گندے ہاتھ پیچھے رکھو‘ یہ کیا بدتمیزی ہے۔“
لڑکا اتنی دیر میں سنبھل چکا تھا‘ مسکرایا اور پینٹ کی جیب سے دس کا نوٹ نکا ل کر اس کے ہاتھ پر رکھا اور لڑکی کی طرف جھکا اور مسکراتے ہوئے سرگوشی کی۔ ”مستقبل کی دعا دے رہی ہے۔“
وہ پہلے ہی بھکارن کے منھ سے سن چکی تھی‘ پریشان تھی اور اندر ہی اندر شرما بھی رہی تھی۔ یک نہ شد دو شد‘ اس کا جیون ساتھی بھی سر عام اسے چھیڑنے لگ گیا تھا۔ اس نے جلدی سے ہینڈ بیگ کی زپ کھولی اور پچاس کا نوٹ جو سب سے اوپر پڑا ہوا تھا نکال کر بھکارن کو تھمادیا گویا اپنی جان چھڑالی۔ مستانی کے ہونٹوں پر کامیاب واردات کی فخریہ مسکراہٹ پھیل گئی ۔ ہر ایسے موقع پر اس کے ذہن میں لفظ واردات ہی ابھرتا تھا۔ لیکن اس بار نوٹ لے کر دعائیں دیتے مڑکر اس کے منھ سے بے اختیار گالی بھی نکل گئی۔ ”حرام زادہ‘ کوئی اور وقت ہوتا تو تجھے اس واردات کا مزہ چکھاتی۔“
نابینا باپ اور مُردوں جیسا نظر آنے والا اونگھتا کم سن بیٹا جس دن اس کے ساتھ نہ ہوتے اس دن اس کا دھندہ پھیکا رہتا۔ دو سال گزرے‘ حادثے کا شکار ہونے سے قبل اس کی ماں اسے مانگنے کے کئی ایک کامیاب گُر سکھا گئی تھی۔ شروع میں جب مانگتے ہوئے اسے مردوں کی معنی خیز اور جسم کے خطوط کو گدگداتی نگاہوں سے واسطہ پڑتا تو وہ مانگنے کا سلیقہ بھول جاتی تھی۔ گھبراہٹ سے دماغ سنسنانے لگتا۔ خود کو چھپانے کا خیال ذہن میں ابھرتا لیکن پھر ماں نے اسے نمٹنا سکھایا تو اس نے یہی گھبراہٹ تکنے والی نگاہوں کو منتقل کرنا شروع کردیا۔ جب وہ دبتی تھی تو اسے بے بسی کا احساس گھیرتا تھا لیکن ماں نے اسے دوسروں کو دبانا سکھایا تو اسے بھی اپنے وجود پر فخر کرنا آیا۔
مستانی کی جھگی سے چند قدم کے فاصلے پر منگو کا بھی جھونپڑا تھا۔ وہ مستانی کا دیوانہ تھا اور اس کی نظریں مستانی پر مرکوز رہتیں۔ منگو اس سے بیاہ رچانا چاہتا تھا اور اسے پانے کے لئے آخری حد سے بھی گزر سکتا تھا۔ اسے مستانی چاہیے تھی جیسی بھی‘ جس حال میں بھی ہو۔ وہ اپنے جذبے کو محبت کہتا تھا لیکن مستانی کی نظر میں ایک وحشی کی طرح تھا جو پیار میں اپنے ساتھی کو بھنبھوڑ بھی سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مستانی اسے پسند کرنے کے باوجود اس سے کتراتی بھی تھی۔
مستانی دن بھر کی تھکی ہاری‘ بیٹے اور بابا کو لے کر جھگی کو پلٹ آئی تھی۔ آسمان پر بادل سمٹ کر شمال کی جانب رواں دواں تھے۔ سورج افق کے اُس پار اترنے کی تیاری کر رہا تھا۔ چاند کی روشنی نے ارد گرد کے ماحول کو پراسرار بنا رکھا تھا۔ جھونپڑیوں کے آس پاس آوارہ کتے وقفے وقفے سے بھونکنے لگتے۔ منگو کتوں کو ہش ہش کرتا ہوا اور زمین سے پتھر اٹھاکے ان کی طرف اچھالتا مستانی کی جھونپڑی میں چلا آیا۔ اس کا اندھا بابا اس وقت سامنے کھوکھے پر چائے پی رہا تھا۔ منگو نے مستانی کو مست نظروں سے دیکھا اور بولا۔ ”تجھ سے کہا ہے اتنی محنت نا کیا کر۔ میں کمانے والا جو ہوں‘ تجھے کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دوں گا۔“
مستانی شوخی سے بولی۔ ”چل کملانہ ہووے تے۔ تُو کیسے اتنا کماسکتا ہے جتنا میں ایک دن میں کما کے لاتی ہوں۔“
پھر وہ زور سے ہنسی تو اس کے سامنے کے تمام پیلے دانت نمایا ں ہوگئے۔ پھر سنجیدہ لہجے میں بولی
” دیکھ منگو‘ مانگنا ہمارا پیشہ ہے۔ سب مل کر نہ مانگیں تو معاملہ خراب ہونے لگتا ہے۔ نوبت فاقوں تک پہنچ جاتی ہے ۔ “
منگو غصے سے بولا ”دیکھ مستانی میں نہیں چاہتا کہ تو سڑکوں پر یوں پھرے۔ میں نے کئی بد ذات دیکھے ہیں جو تجھ پر گندی اور ننگی نظر ڈالنے سے نہیں ہچکچاتے۔“
”لے دس‘ ہم تو خود گندے ہیں۔“ اس کے ہونٹوں پر شرارت بھری مسکان پھیل گئی۔ ” چل بھلا یہ تو بتا تجھے نہائے کتنا عرصہ ہوگیا؟“
منگو اپنی خفت مٹانے کے لئے اس کے قریب کھسک آیا۔ ” اری او بو تو تجھ سے بھی آتی ہے مستانی مگر پتہ ہے مجھے بری نہیں لگتی۔“ اس نے ایک لمبی سانس کھینچی۔ اچانک اس نے مستانی کو اپنے قریب کرکے بانہوں میں بھر لیا اور اس کے انگ انگ کو محسوس کرنے لگا۔ اس پر ایک عجیب سی سرشاری طاری ہوگئی تھی۔ اسے لگا مستانی کا نشہ چرس کے مقابلے میں کہیں زیادہ مدہوش کردینے والا ہے۔ ایک عرصے بعد مستانی کو مرد کے بازوؤں کی گرفت میسر آئی تھی اس لیے اس نے بھی خود کو اس کے سپرد کردیا ۔
کچھ دیر دونوں یونہی جذبات میں مدہوش رہے پھر بابا کی کھانسی سن کر ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔
”کون ہے؟“
”منگو ہے بابا۔“ اس نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
”اچھا اچھا اپنا منگو۔“ بابا کے لہجے میں اپنائیت تھی۔
جب سے منگو اور مستانی نے جوان جسموں کی حرارت کو محسوس کیا تھا‘ منگو بلاجھجھک روزانہ ہی مستانی کی جھونپڑی میں چلا آتا۔ دونوں ایک دوسرے میں کھو جاتے۔ آئے دن مستانی سے تکرار بھی جاری رہتی کہ وہ سارا دن باہر نہ رہا کرے۔ بھیک مانگنے جائے بھی تو سر شام گھر لوٹ آئے ۔ وہ جانتا تھا کہ لوگ مستانی کو اس کے بدن کے صدقے بھیک زیادہ دیتے ہیں اور للچائی نظروں سے تعاقب کرتے ہیں۔ یہ بات اس سے برداشت نہ ہوتی تھی۔ مستانی نے اسے سمجھایا بھی کہ بھکاریوں کی دنیا میں ان باتوں کی کوئی وقعت نہیں لیکن منگو کے سر میں جو شوریدگی تھی وہ کسی طرح کم ہونے میں نہ آتی تھی۔
پھر ایک دن اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا جب اس نے اسے ایک اور نوجوان بھکاری کے ساتھ باتیں کرتے دیکھ لیا‘ کسی بات پر وہ زور سے ہنسی بھی تھی۔ اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اسے لگا کہ مستانی اس کے ساتھ کھیل رہی ہے اور وہ کسی کو بھی اپنا بدن سونپ سکتی ہے۔ اس کی طوفان مچاتی کھوپڑی نے ایک فیصلہ کرلیا تھا کہ مستانی بے وفا ہے‘ مستانی بھروسے کے قابل نہیں۔ اس نے فوری طور پر اس کا علاج ڈھونڈ نکالا ۔ اس کے ہونٹوں پر وحشی مسکراہٹ ناچنے لگی ۔
موسم ابر آلود تھا۔ کالے بادلوں نے آسمان کا پوری طرح سے گھیراؤ کر رکھا تھا۔ وقفے وقفے سے بجلی زور سے چمکتی جس سے بادلوں کی گھن گھرج ماحول کو ایک لمحے کے لئے سہما دیتی۔ منگو مضبوط قدموں سے مستانی کی جھونپڑی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اندھا بابا رفع حاجت کے لیے قریبی نالے کی طرف گیا تھا۔ منگو کو کسی کی پروا نہ تھی ماحول اس کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے عین موافق تھا۔ جھونپڑی کے قریب پہنچ کر اس نے دیکھا مستانی چارپائی پر بیٹھی زور زور سے ٹانگیں ہلارہی ہے۔
منگو کو دیکھتے ہی مستانی حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے بولی۔ ”ارے او منگو تُو اس وقت۔“
ابھی اس کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ بادل زوردار آواز کے ساتھ گرجے۔ مستانی کی دردناک چیخ اس آواز میں دب کر رہ گئی تھی۔ اس کی آدھ کٹی ٹانگیں جھولنے لگیں اور ان سے خون بھل بھل بہہ رہا تھا۔ منگو کی آنکھوں میں درندوں کی سی چمک تھی جو جھونپڑی کے اندھیرے میں بلی کی آنکھوں کی مانند چمک رہی تھیں۔ چارپائی سے بندھا کتا یہ منظر دیکھ کرچارپائی کے ارد گرد تیز تیز چکر لگانے لگا اس کے منہ سے کراہت آمیز آوازیں برآمد ہورہی تھیں ۔ منگو کو دیکھ کر اس پر بھون بھوں کرتا تو مستاتی کو دیکھ کر چیاو چیاوں کرنے لگتا ۔ جتنی اس کی بے بسی بڑھتی جاتی تھی اتنا چارپائی کے گرد اس کے چکر لگانے کا سلسلہ تیز تر ہوتا جاتا تھا ۔ یہاں تک کہ رسی کے تمام بل اس کی گردن تک پہنچے تو چکر لگانے کا سلسلہ تھما اور اب محض گھٹی ہوئی آوازیں اس کے منہ سے نکل رہی تھی ۔حیرت ذدہ آنکھوں میں دکھ کی پرچھائیاں سی لہرا رہی تھیں ۔ آنکھوں میں نمی تیرنے لگی ۔ بے بس ہوکر وہی زمین پر بیٹھ گیا اور سر کو ٹیڑھا کرکے کبھی دائیں توکبھی بائیں دیکھتا ۔
ادھر مستانی حال اوئے منگو اے کی کرتا ظالماں کہہ کر چارپائی پر کمر کے بل الٹ گئی درد کی کئی لہریں اس کے بدن پر سمندر کی تیز لہروں کی طرح لہر در لہر سرائیت کر تی چلی گئیں اور پھر آنکھوں کے آگے مکمل اندھیرا چھا گیا ۔
کئی ماہ بعد جب مستانی کی ٹانگوں سے خیراتی اسپتال کی پٹی اتری‘ اسے وھیل چئیر میں احتیاط سے بٹھادیا گیا۔ اگلے دن بڑے پیر صاحب کے مزار کا ٹھیکا لینے والے ٹھیکدار کے ساتھ منگو نے معاملات طے کیے مزار کے دروازے پر فقیروں کی طویل قطار میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا۔ منگو اپنے پیشے کے اتار چڑھاو سے خوب واقف تھا اسے کسی بھی صورت میں گھاٹے کا سودا منظور نہ تھا اس لئے اس نے مستانی کے لئے وہیل چئیر فروخت کرکے لکڑی کی ریڑھی خرید لی اور مزار کی سب سے پررونق جگہ پر بٹھا دیا اس دن منگو کے چہرے کا اطمینان دیدنی تھا اور مستانی کی آنکھیں کسی کامیاب واردات کے فخر سے خالی ہوچکیں تھیں۔
اڈیٹ
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn