عمومی طور پر طاقت کا ترجمہ کرتے وقت اس سے مراد جسمانی یافوجی طاقت لی جاتی ہے۔لیکن طاقت محض ڈرانے دھمکانے کا ہی نام نہیں بلکہ یہ اپنے اندر وسیع مطالب ومعانی سموئے ہوئے ہے جسکی وضاحت اس کے استعمال کرنے والاہرانسان اپنے ہی نظریے کے مطابق کر تا ہے۔تاریخ ہمیں نہ صرف طاقت کے بے جا استعمال سے روشناس کرواتی ہے بلکہ اس کے منبع وماخذسے بھی آگاہ کرتی ہے۔جب ترک اور مغل حملہ ٓاور برصغیرمیں وارد ہوئے تو انہوں نے محض مسلح طاقت کے بل بو تے پر مقامی راجاؤں کونہ صرف شکست دی بلکہ ان کو اپنا غلام بنا لیا۔مغلوں نے مقامی آبادی پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلیئے دریائے گنگا اور جمنا کی بدولت پھلنے پھولنے والے قدرتی ذرائع کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔مالیانہ اور آبیانہ ان کے ہاتھوں میں دو ایسی کنجیاں تھیں جو ان کی طاقت میں روزافزوں اضافے کا سبب بنیں۔لیکن مقامی ٓابادی کی مزاحمت اور صوبائی گورنروں کی خود مختاری مغلیہ سلطنت کے زوال کا سبب بنی۔طاقت کے پیدا ہونے والے اس خلاکو انگریزوں نے پرکیا جو اوائل میں تو یہاں تجارت کی غرض سے آئے تھے لیکن اپنی لالچی فطرت کے سبب یہاں کی زرخیز زمین پر ان کی رال ٹپکنے لگی اور جدید اسلحے و منظم فوج کی بدولت وہ یہاں کے بلا شرکت غیرے مالک بن بیٹھے۔
سترہویں صدی میں جب سپین یورپ کی عظیم شہنشاہانہ سلطنت کے طور پر ابھرا تو اس کی طاقت کی وجہ جنوبی امریکہ کی کانوں سے نکلنے والا سونا تھا۔سپین نے اسی طاقت کے نشے میں چور ہو کر جنوبی امریکہ کو اپنی کالونی قرار دے دیا اور سیاہ فاموں کی مقامی آبادی کو غلاموں کی منڈی میں لا کر ان کی خرید و فروخت شروع کر دی ۔اپنی طاقت کے مزید اظہار کے لیے اس نے ایک طاقتور بحری بیڑہ انگلستان کو فتح کرنے کے لیے روانہ کیا اور اپنے زیادہ تر وسائل اس جنگ میں جھونک دیے جس کا نتیجہ سپین کے زوال کی صورت میں برآمد ہوا۔
اٹھارہویں صدی میں تاریخ نے ایک نئی بساط بچھائی اور صنعتی انقلاب کے نتیجہ میں اب کہ طاقت کا پلڑا برطانیہ کے حق میں جھک گیا۔مگر اب کی بار جنگ اسلحے کی نہیں بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تھی ۔پرانے مہرے پٹ چکے تھے اور بڑی طاقتوں کے مابین تحقیق و ترقی اور نت نئے سائنسی تجربات کی دوڑشروع ہوگئی ۔ان ممالک کی تعلیمی درسگاہیں نت نئی ایجادات کے لیے بڑی ذرخیز زمین ثابت ہوئیں۔سٹیم انجن کی ایجاد نے فاصلے سمیٹ دیے،جدید مشینری کی ایجاد اور خام مال کی وافر مقدار میں فراہمی کی وجہ سے یورپ نے عالمی منڈیوں تک رسائی حاصل کی اور جدید مغربی استعماریت کی بنیاد رکھ دی جسکا نشانہ اب کی بار ایشیائی اقوام بنی اور برصغیر پاک و ہند اب کی باریورپ کی کالونی ٹھہرا۔لیکن موجودہ دور میں طاقت کے مطالب بدل دینے کا سہرا بھی یورپ کے سر بندھتا ہے جہاں اب طاقت کا مطلب گولہ بارودنہیں بلکہ اصل طاقت علم کی طاقت ہے جسکی واضح مثال امریکہ کا اکسیویں صدی میں سپر پاور بن کے ابھرنا اور خودکو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں لا کھڑا کرنا ہے۔
لیکن طاقت کا دوسرا رخ بہت بھیانک ہے ۔طاقت کی حامل قومیں خود کوبرتراور پسماندہ اقوام کو گٹھیا سمجھتی ہیں اور ان کا یہ غرورانہیں اس بات پر مائل کرتا ہے کہ کمزور اقوام کو اپنے قدموں پر جھکایا جائے ان کی تذلیل کی جائے اور ان کے معاشی اور قدرتی ذرائع پر قبضہ کر کے ان کو اپنا دست نگر رکھا جائے۔طاقتور اقوام کبھی روشن خیالی کے نام پر تو کبھی تہذیب اور جمہوریت کا نعرہ لے کر دنیا میں قتل عام کرتی ہیں تو کبھی انسانی حقوق کا نعرہ لگاتے ہوئے کمزور ممالک پر چڑھ دوڑتی ہیں۔اگردور قدیم میں ایتھنز نے اسی طاقت کے نشے میں چور ہو کر (MILOS)جزیرے پر حملہ کر کے اس کو اپنا باجگزار بنایا تو دور جدید میں یہی کردار امریکہ بہادر ادا کر رہا ہے جو چانکیہ کی ارتھ شاستراور میکیاولی کی دی پرنس جیسی کتب کی روشنی میں یہ لازم سمجھتا ہے کہ ذاتی مقاصد حاصل کرنے کے لیے تمام اخلاقیات کو روند بھی ڈا لا جائے تو کوئی پروا نہیں۔اپنے ا ن خیالات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے پہلے تو تیسری دنیا کے ممالک کے اسباب ووسائل پر قبضہ جماتا ہے اور پھر انہی ممالک کو تعمیر نو کے نام پرآائی ا یم ایف اورورلڈبنک جیسے اداروں کا دست نگر بنا دیتا ہے۔۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ طاقت کبھی کسی کی لونڈی نہیں ہوتی ۔ایک وقت تھاکہ جب رومن سلطنت کا دنیا میں توتی بولتا تھااس کے بعد عربوں کی باری اور اس کے بعد بالترتیب عثمانی ،صفوی اور مغل اقوام طاقت کی حامل رہیں۔لیکن ان اقوام نے اپنی طاقت کے ستون غریب اور پسی ہوئی اقوام کی بے بسی پر ہی کھڑے کیئے۔المختصر طاقتور کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے کمزور کے دل میں مستقل طور پر خوف اور دبدبہ قائم رکھنا ضروری ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn