ڈاؤ میڈیکل کالج کے قریب مشن روڈ پر واقع اودھ ریسٹورنٹ میں ہونے والے ایک اجلاس نے پاکستان کی اُس توانا طلباء تحریک کی داغ بیل ڈالی۔ جس نے آنے والی کئی دہائیوں میں پاکستانی طالب علموں کی مسلسل رہنمائی کی اور انہیں نہ صرف اپنے حقوق کے لئے بے جگری سے لڑنا سکھایا بلکہ ان نوجوانوں نے ایک طرف جہاں ملک کے دیگر محروم طبقات کے حقوق کے لئے مردانہ وار جدوجہد کی تو دوسری طرف وہ عوام کے بنیادی حقوق کی جنگ میں بھی پیش پیش رہے۔ اس اجلاس کے نتیجے میں کراچی میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔ لہٰذا اس اجلاس میں شریک ڈاکٹر محمد سرور’ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی’ ڈاکٹر ہارون احمد’ مرزا محمد کاظم’ سلیم عاصمی’ غالب لودھی’ ڈاکٹر ادیب رضوی وغیرہ کو ہم عموماً اس تنظیم کے بانی ارکان سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ اس تنظیم کی بنیاد اس سے قبل راولپنڈی میں عابد حسن منٹواور ڈاکٹر ایوب مرزا کی رہنمائی میں رکھی جا چکی تھی۔ سن چون میں معاہدۂ بغداد میں پاکستان کی شمولیت کے نتیجے میں پورے ملک میں ترقی پسند اور عوام دوست تنظیموں اور ان کے کارکنان پر جبروتشدد کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کمیونسٹ پارٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین، ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور بے شمار دیگر عوام دوست تنظیموں پر پابندی لگادی گئی اور ان کے سینکڑوں نمایاں کارکنان کو پابند سلاسل کردیا گیا۔ ڈی ایس ایف پہ پابندی کے بعد اس کے سرگرم کارکن خاموشی سے پہلے سے قائم ایک حکومت نواز تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوتے گئے اور سن 56 میں اس تنظیم پر باقاعدہ غلبہ حاصل کرلیا۔ اور ڈی ایس ایف کی شروع کردہ تحریک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ اس وجہ سے پاکستان کی طلباء تحریک کا کوئی ذکر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور اس کی پیشرو تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ذکر کے بنا مکمل نہیں ہو سکتا۔ یہ کہنا بھی حق سے بہت دور نہیں کہ ان دو تنظیموں کی تاریخ ہی دراصل پاکستان کی طلباء تحریک کی تاریخ ہے۔ یقیناً پاکستان میں بے شمار دیگر طلباء تنظیمیں بھی سرگرم عمل رہی ہیں لیکن ان کا کردار ایک مخصوص علاقے ایک مخصوص مقصد یا پھر ایک مخصوص دور تک محدود نظر آتا ہے۔
لیکن یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے کہ ان دو تنظیموں کی جدوجہد کی کہانی کو آج تک باقاعدہ تحریر نہ کیا جا سکا اور اس کا ذکر مختلف اوقات میں تحریر کردہ مضامین اور سرگرم شخصیات سے گفتگو کی شکل میں تو ملتا ہے جو گاہے بگاہے شائع ہوتے رہے لیکن اس کی کوئی باقاعدہ کتابی شکل موجود نہیں۔ اس کمی کا احساس کرتے ہوۓ مئی 2000ء میں این ایس ایف کے دو سابق کارکنان حسن جاوید اور محسن ذوالفقار نے جن کا تعلق اپنے دور طالب علمی میں حسب ترتیب این ایس ایف رشید حسن خان گروپ اور این ایس ایف امیر حیدر کاظمی گروپ سے رہا تھا، فیس بک پر ایک صفحہ کی بنیاد رکھی۔ اس صفحہ کا مقصد این ایس ایف کے سابق کارکنان کو ایک جگہ جمع کر کے اجتماعی تاریخ نویسی کی ایک کاوش کو جنم دینا تھا۔ فیس بک پر صفحے کے آغاز کے چند ہی ہفتوں کے اندر ممبران کی تعداد تین سو سے تجاوز کر گئی اور بہت سے ممبران نے صفحے کے اغراض و مقاصد کے بارے میں گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔ اور اپنی یادداشتوں اور خیالات سے اس پروجیکٹ میں عملی شرکت کرنی شروع کر دی۔ چند ممبران نے اغراض و مقاصد کے بارے میں مزید وضاحت بھی چاہی۔ مثلاً 80 کی دہائی میں اردو کالج اور کراچی یونی یورسٹی کے طالب علم اور این ایس ایف معراج گروپ کراچی کے سابق عہدیدار ابراہیم ساجد ملک نے اپنی خوشی کا اظہار کر تے ہوۓ کہا کہ ‘اپنے تمام تر سابق اختلافات کے باوجود چاہے وہ سیاسی ہوں یا نظریاتی، ذاتی ہوں یا پھر صرف کتابی، پھر بھی ہم سب انگریزی کے صرف تین حروف یعنی این ایس ایف سے ایک ایسا تعلق محسوس کرتے ہیں کہ جو زندگی کے ہر رنگ میں ہماری شخصیت کا تعین کرتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ این ایس ایف کا ماحصل کیا ہے؟ ان تین حروف میں آخر ایسی کیا کشش ہے جو آج تک ہمیں کھینچتی ہے۔ میں این ایس ایف کا ایک عام کارکن تھا لیکن راشد اختر ملک اور دیگر ساتھیوں کی رہنمائی نے مجھے حق کی آواز بلند کرنا اور باطل کے خلاف کھڑا ہونا سکھایا۔ یہ تربیت زندگی کے تمام رنگوں اور ادوار میں میری رہنمائی کرتی رہی چاہے وہ دور تعلیم ہو یا ملازمت، گھر ہو یا محلہ۔ ہو سکتا ہے کہ بہت دفعہ میرا موقف غلط رہا ہو لیکن میں کسی بھی صورت حال میں اپنے موقف کے اظہار سے گھبرایا نہیں ، کیا یہ این ایس ایف کی تربیت تھی یا یہ ہماری شخصیت اور مزاج تھا جس نے ہمیں این ایس ایف کی طرف راغب کیا؟’ ابراہیم ساجد ملک نے مزید کہا کہ نظر آرہا کہ آپ کچھ کرنے پر تُلے ہیں مجھے پارتھا چٹرجی اور گیاتری سپائوک جیسے معروف تاریخ دانوں سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع ملا ہے اور میں نے رنجیت گوہا کو بھی پڑھا ہے۔ میرے خیال میں تاریخ نویسی کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں آپ جو بھی طریقہ اختیار کریں مگر اس سلسلے کو جاری رکھیں۔ 80 کی دہائی کے ڈاؤ میڈیکل کالج کے این ایس ایف کے کارکن رافع ظفر نے اس پروجیکٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے یہ امید ظاہر کی کہ یہ قابل قدر کوشش انا پرستی کے رویوں سے بچتے ہوئے جاری رہے گی۔
کچھ سابق کارکنوں کو اس پروجیکٹ کی شکل میں این ایس ایف کے احیاء کی بھی امید بندھی (گو کہ یہ ہمارے اغراض و مقاصد میں شامل نہیں تھا)۔ ستر کی دہائی کے اوائل میں این ایس ایف کے سابق مرکزی جنرل سکریٹری ڈاکٹر عبدالغفور کاسی نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ ہم نے تاریخ سے کیا سیکھا؟ ہماری نظر میں مستقبل کا نقشہ کیا ہے؟ ماضی کی غلطیوں سے بچنے کے لئے آج کے جوانوں کو ہمارا مشورہ کیا ہے؟ ہمیں ان سوالوں کے جوابات سچے دل سے ڈھونڈھنا چاہیئے۔ آج کا سیاسی منظر نامہ ہماری پر جوش جوانیوں کے دور سے بہت مختلف ہے۔ جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں جیسے رجعت پسند طبقے ہمارے ملک اور تمام دنیا میں بے انتہا طاقت حاصل کر چکے ہیں۔ مگر بایاں بازو آج بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہ وقت ہے کہ تمام بائیں بازو کے افراد، تنظیمیں اور سیاسی ادارے اپنے ماضی کا تنقیدی جائزہ لیں۔ سرمایہ داری کا نظام زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا لہٰذا ہمیں اس خلا کو پر کرنے کے لئے ایک تحریک منظم کرنی ہوگی’
ان مثبت خیالات کے ساتھ ساتھ ہمیں بعض دوستوں کے منفی رویوں کا بھی سامنا رہا لیکن عمومی طور پر اس کوشش کو ابتداء سے ہی ہر مرحلے پر این ایس ایف کے سابق کارکنوں اور رہنماؤں کی بھرپور مدد اور رہنمائی حاصل ہوئی۔ تمام ساتھیوں نے جہاں تک ممکن ہوا اس کاوش میں حصہ لیا۔ اپنی یادداشتیں رقم کیں۔ پرانی تصویریں اور دستاویزات فراہم کیں اور ہمارے سوالات کے جواب ارسال کئے۔ سب سے بڑھ کر ان کی حوصلہ افزائی کے کلمات اس توقعات سے زیادہ مشکل کام میں ہمارے مدد گار ثابت ہوئے۔ بہت ہی ابتداء میں ہمارے ایک ای میل کے جواب میں این ایس ایف کے سابق مرکزی صدر ڈاکٹر باقر عسکری کے پیغام نے ہمارے حوصلوں کو مہمیز دی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کا این ایس ایف کے بارے پیغام ایک خوش گوار حیرت کا باعث ہوا اور اس نے میرے ذہن میں ایسی ہلچل مچا دی جیسے کسی قریب مرگ مریض میں زندگی کی کوئی رمق پیدا ہو جائے۔ یہ پیغام بارش کے ان پہلے قطروں کی طرح تھا جو کسی پیاسے صحرا میں کھڑے کسی ایسے سوکھے درخت پر پڑیں جس کا گھنا سایہ اچھے دنوں میں نہ جانے کتنوں کو راحت پہنچاتا تھا۔ اور اس کی سر سبز لہلہاتی شاخیں دیکھنے والوں کو خوشحال مستقبل کی نوید سناتی تھیں۔ اب کہ آپ نے ایک بجھی ہوئی چنگاری کو ہوا دے دی ہے تو امید ہے کہ یہ آئندہ آنے والوں کو روشنی کی کرن دکھائے گی۔ آپ جس طرح ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک تصویر بنا رہے ہیں میں آپ کو اور آپ کے تمام ساتھیوں کو اس کاوش پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ہم نے مختلف ادوار میں سرگرم این ایس ایف کے کارکنوں اور رہنماؤں سے گفتگو کو اس اجتماعی کوشش کا حصہ بنایا اور زیادہ تر دوستوں نے ہم سے بخوشی گفتگو کی اور اپنی یادداشتیں تحریر کرائیں اور ہمارے سوالات کے جواب فراہم کئے، کئی دوستوں نے تصاویر اور دستاویزات فراہم کیں، کچھ نے شائع شدہ مواد فراہم کیا۔ ہم چاہتے تھے کہ اس اجتماعی کوشش کے نتیجے میں ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کے ان جری جوانوں کی اس جدوجہد کو محفوظ کیا جا سکے جو انہوں نے نہ صرف اپنے حقوق کے لئے بلکہ اس وطن عزیز کے تمام محروم طبقات کے حقوق کے لئے ہر دور میں برپا کیں۔ یہ جدوجہد لوگوں کے حق حکمرانی’ تحریر اور تقریر کی آزادی’ پاکستان میں بسنے والے تمام والے لوگوں کے قومی اور لسانی حقوق’ اقلیتوں اور عورتوں کی حالت زار’ محروم اور مظلوم بے زمین کسانوں اور مزدوروں کے لئے برپا کی جانے والی جد وجہد ہے جس میں این ایس ایف کے کارکن جہاں ایک طرف طالب علموں کے حق تعلیم کے لئے آواز اٹھاتے ہوۓ نظر آتے ہیں تو دوسری طرف وہ صحافیوں کے شانہ بشانہ آزادی اظہار کی جنگ میں مصروف ہیں۔ وہ مزدوروں کی تاریخی تحریکوں میں ان کے قدموں سے قدم ملا کر چلتے ہیں تو بے زمین کسانوں کے احتجاج میں بھی ہم آواز ہیں۔ اور یہ جدوجہد یقیناً کسی رومانیت کا نتیجہ نہیں تھی جیسا کہ آج کل کچھ لکھنے والوں کا خیال ہے۔ یہ ان نوجوانوں کی سوچی سمجھی شعوری کاوشیں تھیں اور انہیں اس میں پنہاں خطرات کا بھی بخوبی اندازہ تھا وہ نام نہاد جمہوری حکمرانوں’ فوجی آمروں اور ریاستی اداروں کے ظالمانہ کردار کے بارے میں کسی حسن ظن کا بھی شکار نہیں تھے۔ وقت کی دھاروں نے ان تک وہ چیخیں بھی پہنچائی تھیں جو ملک کے طول و عرض میں قائم قید خانوں میں روا تشدد کے نتیجہ میں بلند ہوئیں۔ ان تک ان قیدیوں کی روداد بھی پہنچتی تھیں جو بندی خانوں میں اپنی جوانیاں کھو بیٹھے- وہ ان جسمانی اور نفسیاتی زخموں سے بھی واقف تھے جو ان کے ساتھیوں کو اس جدوجہد کے انعام میں ملتے تھے- ضیا الحق کے دور میں ٹکٹکی سے بندھے صحافیوں کی تصویریں بھی ان کی نگاہوں سے اس وقت اوجھل نہ تھیں جب وہ ضیاء دور میں صحافیوں کی "سب سے بڑی جنگ” میں شریک رضاکارانہ گرفتاری پیش کر رہے تھے- یہ جہد مسلسل اور لہو رنگ کہانی کسی رومانی جذبہ کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سراسر شعوری جد وجہد کی کہانی ہے جس میں شریک بہادر جوانوں کو علم تھا کہ وہ دور سے حسین نظر آنے والے ستاروں پرنہیں بلکہ سورج پہ کمند ڈال رہے ہیں۔ 60 کی دہائی کے این ایس ایف کے ایک سابق کارکن اور معروف صحافی احفاظ الرحمان کیا خوب کہتے ہیں کہ ان کی آرزؤں کے رنگ ذات کے خانے میں قید نہیں تھے۔ وہ دنیا سے بدصورت مناظر کو ملیا میٹ کرنے کے لئے اپنی ذاتی آسائشات کو قربان کرتے ہوئے جدوجہد کرتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ وہ صبح سے رات تک اس بدقسمت ملک کی اندھیری راہوں میں چراغ روشن کرتے جاتے تھے۔ ان کے خواب یا ان کے مطالبات بہت سادہ، بے ضرر اور خوب صورت تھے، اس کے باوجود نابینا عقیدوں اور معذور نظریوں کے نام لیوا ان کے لئے غداری کی اسناد جاری کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ طبقاتی تقسیم دولت کا نظام ختم ہونا چاہئیے، ناداروں، مزدوروں، کسانوں کو باعزت انداز میں جینے کا حق ملنا چاہئیے، تعلیم سستی اور عام ہونی چاہئیے، غلامی کی تمام بدصورت تصویروں اور رنگ، نسل، مذہب، زبان اور صنف کی بنیاد پر فضیلت کا علم لہرانے والے تاریک کرداروں کا خاتمہ ہونا چاہئیے جو نفرت کی فصلیں اگاتے ہیں اور غلیظ ذاتی مفادات کے جوہڑ میں غسل کرنے کے بعد درآمد شدہ خوشبوؤں کی بوچھاڑ اپنے جسم پر کرتے ہیں۔ ان نوجوانوں کی اس کہانی کا بیان یوں بھی ضروری ہے تاکہ آج اور آئندہ کی نسلوں کو علم ہو کہ آج جو سامراجی عزائم بلا تفریق باعث مذمت ہیں جو محروم طبقات کی ابتلاء کی داستانیں زباں زد عام ہیں اور ان کے حقوق کا مطالبہ وہ بھی کرنے پر مجبور ہیں جو پہلے اس ذکر سے الرجک تھے یہ جو آزادی صحافت کا غلغلہ ہے۔ یہ جو محنت کشوں اور ہاریوں کا استحصال نفرت کی علامت ٹہرا ہے اور یہ جو جاگیرداری اور قبائیلی سرداری کی کھلی حمایت قابل ندامت ٹہری ہے یہ کسی "کن فیکون” کا حاصل نہیں ہے بلکہ ان نوجوانوں کی جہد مسلسل کا ہی نتیجہ ہے۔ ہمیں اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ مختلف ادوار میں بوجوہ این ایس ایف کو تقسیم، گروہ بندیوں اور ٹوٹ پھوٹ کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجہ میں یہ تنظیم کئی دھڑوں میں تقسیم ہوئی۔ لیکن ہم یہ یقین رکھتے تھے کہ ان کے بنیادی نظریات، اپنے مقصد سے انکی لگن اور اخلاص اور اپنے مقصد کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے پر آمادگی، ان تمام دھڑوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کی واضح اکثریت کے درمیان ایک قدر مشترک تھے۔ لہٰذا ہم نے شعوری کوشش کی کہ ہم ان تمام دھڑوں کے کارکنان اور رہنماؤں کے درمیان کوئی تخصیص یا امتیاز نہ کریں اور ان سب کو اس اجتماعی کوشش کا حصہ بنائیں۔ قریباً پانچ سالوں پر محیط این ایس ایف کی اجتماعی تاریخ نویسی کی ان کاوشوں کو اب "سورج پہ کمند” کے عنوان سے تحریر کیا جارہا ہے اور اس کی پہلی جلد کی اشاعت جنوری 2018ء میں متوقع ہے۔ پہلی جلد تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصہ میں ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کے متعدد کارکنان کے سوانحی خاکے تحریر کئے گئے ہیں، جبکہ دوسرے حصہ میں ہم نے مختلف ادوار، علاقوں اور دھڑوں سے تعلق رکھنے والے این ایس ایف کے کارکنان سے ہماری گفتگو کے خلاصے شامل کئے گئے ہیں۔ تیسرے حصہ میں NSF Revisited نامی فیس بک کے صفحے کے ارکان کی مکمل فہرست شامل کی گئی ہے جو اس اجتماعی کاوش میں شریک رہے یا جن کی حوصلہ افزائی شامل حال رہی۔ این ایس ایف کے ایک بانی رکن اور معروف صحافی جناب حسین نقی نے پہلی جلد کا تعارف لکھا ہے۔
گو کہ "سورج پہ کمند” کا تحریری مرحلہ اب شروع ہو چکا ہے لیکن آپ اب بھی اس اجتماعی کوشش میں شریک ہو سکتے
ہیں۔ دوسری جلد کی اشاعت اگلے سال کے آخر تک متوقع ہے جس میں این ایس ایف کی سال بہ سال تاریخ اور ان تاریخی تحریکوں کا ذکر ہوگا جس میں ڈی ایس ایف اور این ایس ایف شریک رہیں۔ آپ اپنی یاد داشتیں، تصاویر مضامین یا دستاویزات ہمارے درج ذیل ای میل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں ۔ آپ کے تعاون کو باقاعدہ حوالے کے ساتھ اس اجتماعی کوشش کا حصہ بنایا جائے گا۔
Hassan.jawed@gmail.com