Qalamkar Website Header Image

داستان ذرہ خاک

Hussain Abbasصحراوٗں میں رہا ،دربار سے بازار تک سفر کیا۔ در ،دریچہ ،مسجد ،مندر ،راہ دار سے مزار تک ،ایوان سے میدان تک ،کبھی ساہوکار کے مول پہ تو کبھی گداگر کے کشکول پہ ۔حکمرانوں کی گدی سے درویش کی گدڑی تک، سرکار سے خرکار تک سب کے جوتوں میں آیا۔ مگر آج نہ جانے کیوں اڑتے اڑتے ایک قلم کار کے قلم کی نوک پر جا رکا۔ اس نے حیرت سے پہلے اپنے قلم کی نوک کو دیکھا پھر چاہا کہ مجھے جھٹک کر زمین پر پھینک دے ۔یوں تو اس حقارت آمیزرویہ کا ازل سے سامنا کرتا آرہا ہوں ،مگر نہ جانے آج کیوں ایک حسرت بھری نگاہ اس کی نگاہوں سے جاملیں تو وہ جیسے تھم سا گیا۔ مجھے غور سے دیکھ کر سوال کرتا ہے:
’’کون ہو تم؟‘‘
میں نے ہچکچاتے ہوئے اپنی کم مائیگی کو سوچ کے افق پر آفتابِ روشن کی طرح بلند کرتے ہوئے کہا:
’’خاک‘‘
اس کی سانسیں جیسے رک سی گئیں ۔
میں نے پوچھا تم کون ہو ؟ اس نے جھجکتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
’’خاکی‘‘۔
ایک لمحہ کو میں حیرت میں آگیا ، میں خاک ہوں تو یہ خاکی کیسے؟ اس کو اپنی خلقت پر اتنا ناز و تکبر ۔۔۔۔ اگر میں اس کا عنصر ترکیبی ہوں تو اس کا کوئی بھی اثر اس میں کیوں نہ آیا؟
ابھی کچھ اور سوچتا ہی کہ اس سے پہلے قلم کار نے سوال کیا :
’’ تم کیا کرتے ہو؟‘‘
میں نے کہا : ’’وقت کے ظالم تھپیڑے میری منزل اور مقام کا تعین کرتے ہیں، کبھی مسجد کے مینار پر نظر آتا ہوں تو کبھی میخانے کی دیوار پر۔ کہیں میرے بغیر کوئی سایہ دار درخت کھڑا نہیں ہوتا تو کہیں میں خود سایہ کی تلاش میں دربدر پھرتا ہوں، میں کیا کرتا ہوں۔۔۔۔‘‘
اس نے پھر پوچھا ’’تمہاری خلقت کا مقصد؟‘‘
’’یوں تو خالق نے کوئی چیز بے مقصد نہیں بنائی لیکن میرا مقصد وقت اور مکان کا محتاج ہے۔کہیں میری اہمیت ہیرے اور جواہر سے زیادہ ہوتی ہے ، تو کہیں اتنی وقعت کہ لوگ جھڑک دیتے ہیں اور احساس بھی نہیں کرتے‘‘۔
’’تمہارا کوئی دوست؟ ‘‘ایک اور سوال کیا گیا۔
’’ہوا کے دوش پر اڑتا ہوں تو میرے ساتھ مجھ جیسے کچھ اور زررے بھی اڑتے ہیں۔اپنے ہی رنگ وبو کے ایک ٹیلے پر بیٹھتے ہیں۔کچھ دنوں کچھ لمحوں کے لیے انکا ہو لیتا ہوں۔جو ساتھ آئے تھے ان میں سے کچھ وہیں رہ جاتے ہیں،
کچھ نئے اور کچھ پرانے ساتھ ہو لیتے ہیں۔کہنے کو تو دوست بنتے ہیں،پھر بچھڑ جاتے ہیں۔‘‘
’’تم کرنا کیا چاہتے ہو؟ ‘‘اس نے پھر پوچھا۔
’’کچھ کرنے کی چاہت یا تو اپنوں کے لیے ہوتی ہے جسے انسان محبّت کہتے ہیں۔یا پھر دوسروں کو کمتر ظاہر کرنے کے لیے،جسے انسان تکبّر کہتے ہیں۔ نہ میرا کوئی اپنا ہے اور نہ ہے میں تکبّر کا مرتکب ہوں۔ ہاں چند لمحوں کے لیے جو میرے ساتھ ہوتے ہیں میں انہیں ان کا مقصد دے کر ،اپنا آپ کھو کر تسکین حاصل کر لیتا ہوں۔
’’کیا کسی کو تمہاری کوئی قدر ہے؟‘‘ وہ سوال پر سوال کیے جا رہا تھا۔
’’شائد نہیں یا شائد ہو،کیا فرق پڑتا ہے،ہاں جب کسی کو میری ضرورت ہوتی ہے تو وہ خود مجھے ڈھونڈ لیتا ہے ۔
میرے لیے یہی احساس کافی ہے۔‘‘
اس نے پھر پوچھا: ’’کوئی تم سے نفرت کرتا ہے؟‘‘
’’نفرت اس سے کی جاتی ہے جو ضرر پہنچاے ۔میں ایک ادنیٰ بے ضرر خاک کا ذرّہ۔جو خود ہوا کے آگے عاجز ہو وہ کسی کو کیا نقصان پہنچا سکتا ہے؟ ہاں کچھ آنا پرست لوگ اپنی آنا پر ایک ضرب بھی برداشت نہیں کرتے، وہ شائد مجھ سے نفرت کرتے ہوں۔حقیقتاً وہ مجھ سے اتنی نفرت نہیں کرتے جتنی اپنی انا سے محبّت کرتے ہیں۔‘‘
’’کیا تم خوش ہو؟‘‘ وہ سوال پر سوال کرتا رہا۔
’’جو چاہو اگر اسے حاصل کر لینے کا نام خوشی ہے تو ہاں میں خوش ہوں۔میں اپنی ذات کو کھو کر ،اپنے وجود کو کھو کر جو لوگوں کو دینا چاہتا ہوں، جب وہ اسے حاصل کر لیتے ہیں تو میں خوش ہو جاتا ہوں ۔مگر اگر خوشی کا تعلق میری اپنی ذات سے ہے تو اس پیمانے پر تو مجھے کبھی خوشی میسر نہیں ہوتی۔‘‘
’’کیا تمہیں کبھی دکھ ہوتا ہے؟‘‘
’’دکھ نہ تو کسی بات کا ہوتا ہے نہ کسی چیز کے کھو جانے کا۔دکھ تو امید کے ٹوٹ جانے سے ہوتا ہے۔مجھے شاید کسی سے امید ہی نہیں اس لیے کبھی دکھی نہیں ہوتا۔‘‘
’’کیا؟کیا تمہیں کسی سے کوئی امید نہیں؟واقعی؟‘‘ وہ حیران تھا۔
’’اگر کسی کام کو دوسروں کے لیے کیا جائے، کسی بدلے کی نیّت سے کیا جائے، کچھ حاصل کرنے کے لیے کیا جائے تو پھر امیدوں کے پہاڑ کھڑے ہو جاتے ہیں، اور خوشی ان پہاڑوں کے پیچھے چھپ جاتی ہے۔پھر ہم نہ کبھی ان پہاڑوں کو سر کر پاتے ہیں، نہ کبھی خوشی ملتی ہے۔‘‘
’’تم کسی سے محبّت کرتے ہو؟‘‘ اس نے آخری سوال پوچھا۔
’’میں خاک ہوں اور بنا ہی خاکی کے لیے ہوں۔جب اس خاکی کو اس کے پیارے جن کے لیے وہ ساری زندگی دوڑتا پھرتا رہا ایک لمحہ اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے ،اور خاک میں دبا کر چلے جاتے ہیں ،تو میں اسے ابدی زندگی تک کا تحفّظ دیتا ہوں۔شاید اس وقت مجھے اس سے محبّت ہو جاتی ہے۔ پھر رات کی تاریکی ہو یا دن کا اجالا،سخت سردی ہو یا شدید گرمی، مینہ برسے یا خشک سالی ہو،نہ میں اسے چھوڑتا ہوں نہ وہ مجھے۔ میں اس کے ساتھ خوش وہ میرے ساتھ خوش۔ہاں شائد اسے ہی تو محبّت کہتے ہیں۔‘‘
اس نے ایک بار سر کو جھٹکا، میری باتوں کو سنا ان سنا کیا،اور اپنے قلم کی نوک کو یہ کہتے ہے جھٹک دیا ’’میں اتنا بڑا قلم کار اس نا چیز ذرے سے گفتگو میں وقت ضائع کروں؟‘‘ یوں میں اپنی زندگی میں اپنے جسم پر دوات کا رنگ چڑھائے چند لمحے قلم کار کی زندگی گزارتا ہوا زمین پر آگرا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

کنفیشن باکس

سرد ہوا جیسے رگوں میں خون جمانے پر تلی تھی ۔ رات بھر پہاڑوں پہ برف باری کے بعد اب وادی میں یخ بستہ ہوائیں تھیں ۔ خزاں گزیدہ درختوں

مزید پڑھیں »

کتبہ (افسانہ) غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ

مزید پڑھیں »

داعی (افسانچہ) – ابوعلیحہ

مولانا کمال کے آدمی تھے۔ ستر برس کے پیٹے میں بھی ان کے ضخیم بدن کا ہر ایک رونگٹا، ان کی مطمئن صحت کی چغلی کھاتا تھا۔ ملیح چہرے پر

مزید پڑھیں »