اک دوست کا کہنا ہے کہ کل جس وقت ہماری پارلیمنٹ میں ٹریکٹر ٹرالی پر بات ہو رہی تھی نریندر مودی امریکہ میں اپنے خطے کے معاشی خدوخال پر بات کر رہا تھا
خواجہ آصف نے شیریں مزاری پر طنز اور اخلاق سے عاری گفتگو کر کے اپنے تئیں اک کارنامہ سر انجام دیا اور داد طلب نظروں سے دوسرے ممبران کی طرف بھی دیکھا اور ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ سپیکر سمیت کافی ممبران ان کی بات پر مسکرا رہے تھے اور اک صاحب کی تو ہنسی تھمنے میں نہیں آ رہی تھی سپیکر ایاز صادق کا معززانہ پن ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے بھی خواجہ آصف کی یہ کہہ کر حوصلہ افزائ کی کہ اگر آپ اس طرح کرو گے تو ایسا ہی جواب آۓ گا اور تحریک انصاف کے ممبران کو ڈانٹ پلاتے ہوۓ کہا کہ آپ بیٹھ جائیں ورنہ یہ الفاظ کاروائ سے حذف بھی نہیں ہوں گے یہ تھا ہمارے کرتا دھرتاؤں کا رویہ وہ کرتا دھرتا جو ہم عوام کے مستقبل کے فیصلے کرتے نظر آتے ہیں عالمی سطح پر دنیا کی ترقی کا مقابلہ کرنے کی لیے اور ریاست کی طرف فرائض پورے کرنے کے لیے ہم نے ان کو چنا ہے اب آتے ہیں دوسرے فریق کی طرف
خواجہ آصف کی اس بد تہذیبی کے بعد تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے جوتے مارنے اور الٹا لٹکانے جیسے بیان دے کر ہماری سیاسی جماعتوں کی سیاسی بلوغت کا پول کھول دیا عوام کا رد عمل دیکھ کر بھی سر پیٹنے کا دل کرتا ہے جہاں اس بیان کے بعد مریم نواز کے کردار کی دھجیاں اڑائ گئیں وہیں ن لیگ کے دوسرے رہنماؤں کی بھی ماں بہن اک کر کے رکھ دی گئ اور ن لیگ کے کارکنان نے بھی تحریک انصاف کے کارکنان کی بدتمیزی کو جواز بنا کر خواجہ آصف کے اس عمل کی حمایت کی مگر سوچنے کی بات یہ ہے که نوجوان طالب علموں اور اک منجھے ہوۓ ادھیڑ عمر سیاستدان جس کے کاندھوں پر دو دو وزارتوں کا بوجھ ہے جو ملک کے دفاع کا ذمہ دار ہے جو کئ ملکوں سے ڈیل کرتا ہے اس کے شعور میں فرق ہونا چاہییے کہ نہیں
امریکہ میں کونسی ایسی اخلاقی بیماری ہے جو نہ پائ جاتی ہو مگر جب ان کے صدر کا جنسی سکینڈل سامنے آتا ہے تو وه حکومت گرنے کا باعث بن جاتا ہے اور صدر کو معافی تلافی کے ذریعے جان چھڑوانی پڑتی ہے اس کی وجہ یہ کہ بحیثیت عوام وه بھلے جتنے برے ہوں مگر اپنے لیڈر میں وه کسی قسم کی برائ دیکھنا پسند نہیں کرتے که لیڈر پر منحصر کرتا ہے کہ وه ان کی آنے والی نسلوں کے لیے ملک کو اک فلاحی ریاست کے دور پر تیار کرتا ہے یا مسایئل کا سامنا کرنے میں ناکام رہتا ہے اس لیے وہ لیڈر کا چناؤ سوچ سمجھ کے کرتے ہیں ان کی پالیسیز کئ کئ دھائیوں پر محیط ہوتی ہیں مگر ہمارے ہاں کریکٹر لیس سیاستدان صبح سے شام تک کی پالیسی بھی نہیں بنا سکتے اور ہمارے پارلیمان میں جو زبان استعمال ہوتی ہے خدا کی پناه میرے نزدیک سارا قصور عوام کا ہے جو خربوزه خریدتے وقت آدھی ریڑھی سونگھ جاتی ہے مگر لیڈر کا انتخاب کرتے وقت ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn