بائیس توپوں کی سلامی ان الباکستانی ’’صالحین‘‘ کے لئے جو اپنے ممدوح خلیفہ اردگان کو سلطان صلاح الدین ایوبی ثانی بنا کر پیش کر رہے ہیں لیکن اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کا سلطان صلاح الدین ایوبی ثانی جن کردوں کے سفاکانہ قتلِ عام میں ملوث ہے ان کردوں کا سلطان صلاح الدین ایوبی (اصل والے) سے خونی رشتہ ہے۔ کیونکہ وہ بھی کرد تھے۔ معاف کیجئے گا ہیروز اور تاریخ ’’مانگے تانگے‘‘ کے ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ کسی مزاح نگار نے کہا تھا ’’توں کی جانیں بھولئیے مَجھے انارکلی دیاں شاماں‘‘ ۔ پاک و ہند کے مسلمانوں کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ اصل سے کٹنے کے بعد انہیں خالص و ملاوٹ کی تمیز نہیں رہی۔ کیا ہزار برس سے کچھ اوپر ہندو سماج میں رہنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ’’پاک وہند کے مسلمان عقیدوں کی تھاپ پر دھمال اور ذات پات کی حرمت کو اسلام سمجھتے ہیں‘‘؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ ناخواندگی اور روزمرہ کے مسائل کے ساتھ خوئے غلامی نے سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں چھین لی ہیں۔ ویسے کیا کبھی یہ صلاحیتیں تھیں بھی؟ ایک کے بعد ایک سوال منہ اٹھائے آن کھڑا ہوتا ہے۔ کیا کیجئے سوال اور غم بہت ہیں اور زندگی مختصر۔ گولن فوبیا کا شکار خلیفہ اردگان 500 ڈگری کی الٹی زقند بھرتے ہوئے روس جا پہنچے۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اہلِ مغرب امریکہ کی سرپرستی میں ان کے اقتدار اور ترکی کے دشمن ہیں۔ کاش کوئی ان سے دریافت کرتا حضور خلیفہ جی! کس نے کہا تھا ترکی کو انسانیت و امن اور علاقائی سلامتی کے دشمنوں داعش، النصرہ فرنٹ و جہاد اسلامی کے لئے گاڈ فادر اور سہولت کار بنانے کو؟ اس مغرب اور امریکہ نے جس کے کل تک آپ چہیتے تھے؟ تبریزؒ اور رومی ؒ کی سرزمین میں محبتوں کے نغمے گونجتے تھے۔ یہ آپ ہی تھے جس نے بارودیوں کی فصل بوئی۔ چلیں دو ایکٹ کا ڈرامہ آپ کو یہ تو سمجھا گیا کہ حد ادب و سرحد کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ ضروری نہیں ہوتا کہ ساری خواہشیں پوری ہوں۔ وقت نے پلٹنے اور بہتر روایات قائم کرنے کا موقع دیا ہے تو تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیجیئے۔ ناگزیر لوگوں سے دنیا بھر کے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔ ترکی کی قومی سلامتی لاریب اہمیت کی حامل ہے لیکن دوسروں کی قومی سلامتی سے چوگان کھیلنے سے اجتناب کیجیئے۔
تمہید طویل ہوگئی۔ لیکن کچھ تذکرہ ترکی اور خلیفہ جی ہر دو ذکر کا بہت ضروری تھا۔ آئیے اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ کیا دنیا بھر میں پھیلے مسلمان عقیدوں کے کوٹھوں پر بیٹھے انسانیت کا مجرا دیکھنے کو فرضِ زندگی اور عقائد کی نشاطِ ثانیہ سمجھتے رہیں گے یاکبھی اس ابدی سچائی کی طرف بھی نگاہ کریں گے کہ جبر تو اپنی ذات منوانے کے لئے اللہ رب العالمین نے بھی نہیں کیا۔ اس یعنی اللہ نے بھی پیغامِ محبت و اقرار کے لئے انبیا ؑ بھیجے۔ کیا امر مانع تھا کہ وہ خلق کردہ مخلوقوں کے ذہنوں میں اطاعت الٰہی راسخ کر دیتا؟ کچھ بھی مانع نہیں تھا مگر اس طور انسانی سماج کا ارتقا اس طرح نہ ہو پاتا جس کی تاریخ پڑھتے ہوئے ہم سارے انسان فخر سے سر دھنتے ہیں۔ کبھی ہمیں یہ سوچنے کی زحمت بھی کرنا ہو گی کہ کل جب آئندہ نسلیں ہمارے عہد کی تاریخ پر پہنچیں گی تو پڑھنے والوں کے ماتھوں پر شکنیں ابھرآئیں گی۔تاریخ کا انصاف بہت ہی بے رحم ہوتا ہے۔ سو بہت ضروری ہے کہ انسانی اقدار کو زندہ و تابندہ رکھنے میں بساط مطابق کردار ادا کیا جائے۔انسان کسی رنگ ونسل، مذہب و عقیدے یا اپنی قومی، لسانی، مذہبی و مسلکی شناخت کی بنا پر قتل ہو تو اس قتل کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے دو کام کیے جائیں۔ اولاََ اس کی شناخت کو نہ چھپایا جائے جو وجہ قتل ہوئی اور ثانیاََ مرنے والے سے اپنا جذباتی تعلق یا رشتہ تلاش کرنے کی بجائے ظالم کی مذمت کی جائے۔ وہ چاہے ہمارا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ انسانی سماج کے ارتقا میں جو مقام محبت و انسان پروری کو حاصل ہے وہ کج ادائی کو ہرگز نہیں۔کاش الباکستانی ذہنیت کے مارے ہووں کو یہ بات سمجھ میں آجائے۔ حلب کے معصوم و مظلوم بچے کی تصویر لگا کر عقیدوں کے کوٹھوں پر انسانیت کا مجرا دیکھنے والوں سے ایک سادہ سا سوال ہے۔ ان کی غیرت اس وقت کہاں دانہ چگنے چلی جاتی ہے جب یمن میں آلِ سعود اور اتحادیوں کی بمباری سے معصوم فرشتے موت کا رزق بنتے ہیں؟ ان کے گلوں سے صدائے احتجاج ان سموں برآمد کیوں نہیں ہوتی جب عراق میں داعش کے درندے معصوم بچوں کو زندہ جلا دیتے ہیں۔خامشی اس وقت کیوں تقدس مآب ہو جاتی ہے جب کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ قبیلے کے بچے چیتھڑوں کی صورت بکھرتے ہیں یا افغانستان میں اتحادیوں کی بمباری کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ اسلام، امن ،انسانیت کی درد کی تیز لہر صرف حلب کے بچوں پر ٹوٹے مظالم کے بعد ہی کیوں بے چین کردیتی ہے؟ کیا یمنی، شامی، عراقی، فلسطینی، افغانی، کوئٹہ کے شیعہ ہزارہ بچے کوڑے کے ڈھیروں پر اگتے ہیں؟ آسمان سے گرتے ہیں؟ اور بشار الاسد کے طیاروں کی بمباری سے متاثرہ بچے عفت مآب ماؤں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں؟ یمنی، فلسطینی، عراقی، شامی اور افغانی مائیں ہوں یا پاکستانی شیعہ مسلمانوں کی مائیں یہ بچے پیدا کرنے کی قدرتی نعمت سے محروم ہیں؟ یا پھر ان کا قتل ہوتے رہناآپ کے عقیدوں کے کوٹھوں کی رونق کو دوام بخشتا ہے؟ سوال اور بھی بہت ہیں۔ اتنے کڑوے کسیلے کے عقیدوں کا باندر کلہ کھیلنے میں دیکھنے میں مصروف الباکستانیوں کے چودہ طبق روشن ہو سکتے ہیں۔ مگر سارے سوال بے فائدہ ہیں۔ انسانیت رتی برابر نہیں ہے اس سماج میں۔ معاف کیجئے گا کیا واقعتاََ ہم سارے کسی سماج میں رہتے ہیں؟ زندہ انسانوں اور فہمیدگی سے سماج تشکیل پاتے ہیں۔ آدمیوں کے جنگل میں ٹنڈ منڈ قسم کے خود رو پودے اگتے ہیں۔ انہی پودوں کی بہتات ہے یہاں۔ معصوم اور مظلوم بچوں کے نام پر عقیدوں کے کوٹھوں پر رونق لگانے والے اس قابل ہی نہیں کہ انہیں انسان کہا جائے یا مسلمان
بچپن میں ایک کتاب (درسی کتاب) میں یتیم بچے کی کہانی پڑھی تھی۔ عید کی صبح مدینہ کی ایک گلی کے کنارے بیٹھا خستہ حال بچہ نیلے آسمان کی طرف دیکھے آنسو بہارہا تھا۔ سرکارِ دوعالم آقائے صادق حضرت محمد ﷺ کااس گلی سے گزر ہوا۔ معصوم فرشتے کو روتے دیکھا تو قدم تھم گئے۔ زمین سے اٹھایا، آنسوؤں سے بھرا چہرہ صاف کیا، محبت سے بوسہ دیا اور دریافت کیا روتے کیوں ہو؟ ننھے فرشتے نے جواب دیا یتیم ہوں۔ آج عید ہے۔ سارے بچے نئے کپڑے پہنے ہوئے اپنے باپوں کی انگلیاں پکڑ ے خوشی خوشی راستوں سے گزر رہے ہیں۔ کاش میرا بھی باپ زندہ ہوتا۔آنسوؤں کی جھڑی ہادی برحق ﷺ کی آنکھوں سے لگ گئی۔ یتیم بچے کو گھر لے گئے۔ نئے کپڑے پہنوائے۔ اور پھر ساتھ لے کر مدینہ کی گلیوں میں گھومتے ہوئے فرمایا کوئی پوچھے تمہارا باپ کون ہے تو فخر سے جواب دینا محمد ﷺ میرے باپ ہیں۔ کیا میں یہ عرض کروں کہ مسلمان کہلانے والے پاکستانیوں اگر تاریخ کی کتابوں میں لکھا یتیم پروروں کا یہ قصہ سچا ہے تو تم کیا ہو؟ اپنے اعمال و افعال سے ہادی برحق ﷺ کا دل دکھانے والو کس برتے یہ دعویٰ کرتے ہو کہ تم مسلمان ہو؟ مذہب و عقیدہ کاروبار ہے تمہار اسی لئے اپنے اپنے عقیدوں کے کوٹھوں پر بیٹھے تماشے دیکھ رہے ہو۔ بہت ہوتا ہے تو کبھی کبھی مظلوم کی ہمنوائی کا ڈھونگ رچاتے ہو مگر اس خیال کے ساتھ کہ مظلوم کا تعلق تمہارے عقیدے سے ہو۔ یاد رکھیئے اور یہ مجھ اور آپ ہم سب کو یاد رکھنا ہو گا کہ ظالم و مظلوم میں پسندیدگی و ناپسندی گھناؤنا جرم ہے۔ کچی روٹی پڑھے ملا کے کاروبار کے بڑھاوے میں کردار ادا کرنے کی بجائے انسانیت کے درد کو بطورِ انسان محسوس کیجئے۔ البتہ اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے انسان خود انسان بنے۔ انسان سازی کیجئے تاکہ معاشرہ وجود میں آئے۔
دوسروں کے مقتول و مظلوم بچوں پر خاموشی اور مطلب پرستی کے لئے کسی بچے کی مظلومیت بھری تصویر کو اپنے دھندے کا ذریعہ بنانے سے اجتناب کیجئے۔ خدا نہ کرے کہ کل آپ کے لختِ جگر کو ان حالات اور وحشتوں کا سامنا کرنا پڑے۔ خاکم بدہن ایسا ہو تو ذہن نشین کر لیجئے کہ اس وقت کوئی آپ سا بدبخت بالکل آپ کی طرح یہ کہہ کر منہ موڑ لے گا ’’یہ میرا بچہ تھوڑا ہی ہے‘‘۔ کوئی دوسرا سفاک آپ کے مظلوم بچے کی تصویر اور مظلومیت سے اپنے عقیدے کے کوٹھے کی رونق بڑھائے گا۔ ایسا ہوا (خدا نہ کرے ایسا ہو) تو دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے آپ کی کیا حالت ہو گی؟ مکرر عرض کرنا چاہوں گا انسانیت ،امن، آزادی اور محبتوں کے دشمن کسی کے سگے نہیں ہوتے۔ زندگی کی سچائی یہ ہے کہ انسان ہی افضل و معتبر اور قابلِ تکریم ہے۔ لاریب حلب کا معصوم فرشتہ ہمارابچہ ہے لیکن یمن، فلسطین، عراق، شام، برما، افغانستان اور شیعہ ہزارہ قبیلے کے بچے بھی ہمارے بچے ہیں۔ میری فاطمہ کی طرح، آپ کے احمد اور حلیمہ کی طرح۔ کاش کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn