Qalamkar Website Header Image

لفظوں کی کوئل۔۔۔ نیئر رانی شفق

fazalکہانی کار کی اضطرابی کیفیت کو کوئی تخلیق کار ہی جان سکتا ہے۔ کہانی ایسے ہی تخلیق نہیں ہوجاتی۔ کہانی کے لیے ذہنی ہم آہنگی، مواد کی فراوانی، مطالعہ کا وسیع ہونا، قوت مشاہدہ کا قوی ہونا، تحریر کی پختگی، ترتیب، تہذیب، ثقافت سے آگہی، ماضی کی معلومات ، حال پہ نظر، معاشرہ کو بینا آنکھوں سے دیکھنا ، معاشرہ میں وجہ بگاڑ کو پرکھنا، حالات کو جانچنا، اجتماعی اذہان اور نفسیات کا علم، مریض کی نبض پہ مسیحانہ ہاتھ رکھ کے تحریری طور پر اس کا علاج کرنا، ایک کہانی کار کا قابل داد کردار گردانا جاتا ہے۔
کہانی کے لیے موضوع، پلاٹ اور ملبہ تو ایام زیست میں بے بہا بکھرا پڑا ہے مگر کہانی کی بنت، ترتیب اور کرداروں پہ روشنی ڈالنا اتنا آسان نہیں کہ ہر شخص کہانی کار کہلانے کا حق رکھتا ہو گو کہ ہمارے معاشرے کا ہر شخص کئی کئی کہانیوں کا کردار رکھتا ہے۔ کہانی کار کے ننگے دست و پاء کی کرب میں ڈوبی ہوئی کئی پرخار دوادیاں منتظر رہتی ہیں۔ کہانی کار لفظ، لفظ پر سلگتی سلاخوں کا سفر کرتا ہے۔
کہانی اور نوحہ ان دو اصناف کے لیے تخلیق کار کو دشتِ کربلا کا سفر کرنا پڑتا ہے اور کہانی کار اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے حالات کو تحریر کرتے ہوئے اپنے احساسات اور جذبات کی ہانڈی میں ابلتا رہتا ہے۔ جب تک مضمون پاۂ تکمیل تک نہیں پہنچتا کہانی کار کی اذیت دیدنی ہوتی ہے اور اس کی اضطرابی کیفیت ہی اسے پرواز سے ہمکنار کرتی ہے۔ آج میں جس شگفتہ مزاج شاعرہ، افسانہ نگار اور کہانی کار جسے میں لفظوں کی کوئل کہا کرتا ہوں پر لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ حال ہی میں نیررانی شفق کی کہانیوں پر مشتمل کتاب ’’شفق رنگ کہانیاں‘‘ بذریعہ ڈاک موصول ہوئی تو پڑھنے پر محسوس ہوا کہ ڈیرہ غازیخان کی سرزمین بھی افسانہ نگاری اور کہانی کار ہونے کی بدولت لاہوری مزاج اور کراچی کی آب و ہوا سے کم نہیں ہے۔ ویسے بھی میرا وسیب فکری حوالہ جات میں کسی سے کم نہیں، ہاں کچھ اجتماعی محرومیاں ہیں جو مقامی منتخب نمائندگان کیوجہ سے ہمارا سرپیٹ رہی ہیں۔ ان شاء اللہ اگر اسی طرح فکری کام ہوتا رہا تو ہم اس نحوست سے بھی جان چھڑالیں گے۔
Nayyar Rani Shafqنیر رانی شفق ایک مہذب مدرسہ، ممتائی کیفیت سے سرشار ماں، الفت کرتی ہوئی بہن اور فرض شناس شخصیت ہیں جس کی ہستی پر فخر کرنا وسیب کا حق ہے۔ نیئر رانی شفق چند ایک شاعرات ڈیرہ غازیخان کی طرح رعونت، گھمنڈ اور تکبر کے مرض میں غرق نہیں بلکہ محبت، سادگی، اخلاص سے نثار ہونے کا ہنر خوب جانتی ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ لفظوں کی یہ جادوگرنی ضرور اپنے دست شفقت سے سرزمین ادب پر اَن گنت کلیاں ضرور لگائیں گی۔ احساس رکھنے والے مرد کا عورت نے اور حقوق سے نا آشنا مرد نے عورت کا جینا مشکل کردیا ہے۔ ہنر کہانی یہ تو میں بات کرنے سے قاصر ہوں مگر نیئررانی کی کہانیوں کا خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ دیکھتے ہیں پہلی کہانی ’’تلاش موسم گل‘‘ اس کہانی میں جو حقائق نمایاں ہوئے ہیں ایک تو کردار صدف کا اپنی مرضی کے رشتہ میں ناکامی، دوسرا وقاص کا وہ شرمیلا پن جو اسے والدین کے حقوق بصورت چھوٹے بہن بھائی تو دکھائی دئیے مگر اپنے گھر کا اجاڑ پن اور بیوی کے فرائض کا خیال نہ رہا اور وقاص کی امی کا طریقہ واردات، بہانہ بازی، مکاری اور عیاری کی سند یافتہ عورت معلوم ہوا جو کہ بیٹے کی گھر داری سے زیادہ اپنی زبان درازی کا ہنر عزیز رکھتی تھی اور وقاص کے ابو بھی اپنی بیوی کے فرمانبردار تو ثابت ہوئے مگر بہو کی انسانی آزادی کو صلب کرتے رہے۔
کہانی تلاش موسم گل سے کچھ اقتباس اور جملے جو میرے دل کو بھائے
۱۔ اس نے لاڈ سے اپنے بازو ماں کے گلے میں حمائل کردئیے۔
۲۔ خزاں رسیدہ، اداس شامیں، نیلگوں آسمان پر تیرتے بادل، جھومتی گھٹائیں اور رم جھم برستا ساون نے اس
کے اندر کی شاعرہ کو جگادیا۔
۳۔ جب وہ بولتی تو مدھم سروں میں گھنٹیاں بجنے لگتیں۔
۴۔ آخر ایک دن صبوحی، آسیہ اور زینب کے ہمراہ اسپتال گئی تو واپسی پر ایک گل گوتھنی گلابی کپڑوں میں لپٹی
گلابی پھول جیسی بچی بھی ہمراہ تھی، صدف نے بچی کو ’’پنک فیری‘‘ کا خطاب دے دیا۔
۵۔ اماں حسب معمول تیلی دکھا کر سر پر پٹی باندھ کر لیٹ گئی جبکہ دیگر افراد خانہ چیخ و پکار میں مصروف ہوگئے
کسی حساس انسان کے لیے گھر کا ایسا ماحول موت ثابت ہوتا ہے۔ سارا دن گھر کا کام کرنیوالا آدمی جب
روٹی کھانے بیٹھے تو گھر میں محشر بپا ہو جائے تو اس کی آنتوں میں انیٹھن تو ہوتی ہی ہے۔
۶۔ اذیتوں میں گذرا ہوا تمہارا ہر ایک لمحہ مجھے خون کے آنسو رلاتا تھا مگر میں بہت مجبور تھا ، بے بس تھا۔
والدین کے آگے سب سے بڑا بیٹا ہونے کے ناتے مجھے صرف یہی سکھایا گیا کہ میں نے والدین اور بہن
بھائیوں کے لیے قربانی دینی ہے۔ فرائض ادا کرنے ہیں، فرائض کی ادائیگی میں اپنا حق وصول کرنا بھول
گیا اور فرائض بھی فقط خونی رشتوں کے بیوی کیلئے میرے فرائض کیا ہیں؟ یہ میں جانتا تھا مگر ادائیگی میرے
بس کی بات نہ تھی۔
’’خواب، سراب اور گلاب‘‘ اس کہانی میں آنکھیں بند کرکے بیٹیوں کا رشتہ کرنیوالے سماج کے لیے سبق ہے۔ جو اپنے بھائی، عزیزوں کو تو اہمیت دیتے ہیں مگر بیٹی کی زندگی اس کے جذبات، احساسات کی کوئی قیمت نہیں جانتے۔ بیٹیوں کا رشتہ طے ہونے پر والدین اگر بیٹی کی رائے کا احترام اور حقیقی مشیر کا کام سر انجام دیں تو ایسے مسائل کا منہ بند ہو جائے جس کی وجہ سے بعد میں گھر اجڑ جاتے ہیں۔ بیٹی کا رشتہ کرتے وقت ہونے والے داماد کا مکمل طور پر اٹھنا، بیٹھنا، شب گزاری، محفل احباب، عادات، دن کے معمولات کا جائزہ از حد ضروری ہے۔ کیا خوب نیر رانی نے اپنی کہانی میں سماج کی عکاسی کی ہے۔
’’سن تو سہی‘‘ موجودہ لٹ پٹ کے دور میں جہاں مرد تو مرد عورتیں بھی پیچھے نہیں رہیں، اکیلی عورت کو گھر میں دیکھ کر گھر کا صفایا کردینا جیسی واردات کا ہونا روز پیش آتا ہے۔ مصیبتوں سے بچنے کے لیے نیررانی اپنی کہانی ’سن تو سہی‘ میں عورت کو بیدار کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اگر گھر میں کوئی سادہ ذہن بچہ ہو تو اس کی تربیت پر بالخصوص توجہ دی جائے۔
’’وصال کے گلاب‘‘ اس کہانی میں انسان کے لیے یہ سبق ہے کہ وہ اپنے حوسلہ بلند رکھے اور خلوص دل اور نیک جذبے کیساتھ اپنی مراد پاسکتا ہے اور زندگی کا تلخ سے تلخ سفر بھی کاٹ سکتا ہے۔
’’خواب خوش گماں‘‘ کہانی خواب خوش گماں اجڑتے آنگنوں کے لیے ایک سبق ہے۔
’’امید کے جگنو‘‘ اس کہانی میں نیر رانی نے ملکی حالات کے پیش نظر ڈر کر ملک سے بھاگنے والے لوگوں کو حوصلہ دینے کی کوشش کی ہے جو بہت ہی جرات کا کام ہے اور بزدلوں کو جرات دلانے کی عملی کاوش لگتی ہے۔
’’کٹ گئے درد کے فاصلے‘‘ اس کہانی کا مطالعہ کرتے ہوئے صائمہ کے کردار نے مجھے بھی حقیقت میں رلادیا اور میرے آنسو بے اختیار کتاب کے صفحہ نمبر 157/158 پر گرتے رہے۔ کیا ہی مزاج شک اور ناخواندہ عورتوں کے رویے نے دو دلوں میں نفرتوں کی ہوا گھول گھول کر انہیں گھر کے اجاڑ پن کے سپرد کردیا اور صائمہ نے کیا صبر اور جوانمردی کا مظاہرہ کیا اور اپنی خودی کی رکھوالی بن کر بچوں کی باپ کی طرح تربیت کی اور اپنی زیست میں اپنے سچے پیار سلیم کو پالیا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »

زیف سید کا ناول گل مینہ

زیف سید کا ایک تعارف بی بی سی پر لکھے گئے کالم ہیں۔ وہ اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر بی بی سی کے چند مقبول کالم نگاروں میں سے

مزید پڑھیں »

جنگ جب میدانوں سے نکل کر آبادیوں کا رخ کرتی ہے۔

”سر زمین مصر میں جنگ“ مصری ناول نگار یوسف القعید نے 1975 لکھا ہے۔ جو ہمیں بتاتا ہے کہ جنگ کی وجہ سے کسی ملک کے غریب باشندوں پر کیا

مزید پڑھیں »