ہمارا آج کا موضوع بھی سوز خوانی ہے ۔اس کا پہلا حصہ آپ کی خدمت میں کل پیش کیا گیا تھا۔
کلاسیکی موسیقی کے گھرانوں کی طرح سوز خوانی کے بھی مختلف دبستان یا مکاتب موجود ہیں۔لیکن کلاسیکی موسیقی کے بر عکس سوز خوانی میں یہ دبستان یا مکتبے، بستے کہلاتے ہیں۔ یہ بستے مختلف علاقوں یا خاص استاد یا اساتذہ کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں ۔ ان میں اودھ، آگرہ ، دہلی،خورجہ، میرٹھ، سادات بارہہ امروہہ، حیدرآباد دکن اور بہار کے مقامی انداز قابل ذکر ہیں۔ان کے علاوہ سوز خوانی میں الور اور جے پور کے اساتذہ کا بھی اپنا الگ دبستان ہے جو سب سے مختلف، مشکل ، منفرد اور مقبول نظر آتا ہے۔
یو پی یا اودھ کی سوز خوانی جب پنجاب پہنچی تو مقامی لوک انداز اور طرز موسیقی اور ثقافت کے مزاج کے مطابق ایک نئے انداز مین سامنے آئی اور ذاکری کہلائی۔ یہ ہندوستانی طرز کی ذاکری، سوزخوانی اور نوحہ خوانی کی ملی جلی شکل ہے۔اس طرز سوز خوانی کا رواج تقسیم سے پہلے ہندوستان میں بھی موجود تھا۔یہ طریقہ خاص طور پر خواتین میں بہت مقبول تھا بلکہ آج بھی مقبول ہے۔ عورتوں کی گھریلو مجالس میں لواعج الاحزان اور ذائقہ ماتم قسم کی روایات اسی طرح پڑھی جاتی ہیں۔ پنجاب میں یہ طرز ذاکری کہلایا۔ یہ بڑی مضبوط اور موئثرصنف ہے اور عوام اور خواص دونوں میں بے حد مقبول ہے۔
سوز خوانی کا فن اودھ میں اپنے عروج کو پہنچا۔ فن سوز خوانی میں لکھنؤ نے بڑے بڑے استاد پیدا کئے۔ جن میں میر مہدی حسن ، سجاد حسین صاحب، نواب نادر مرزا اور نواب منجھو صاحب کا نام اس فن کے با کمالوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔بر صغیر کی تقسیم کے بعد سوز خوانی کے ماہرین منتشر ہو گئے تو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ شاید یہ فن ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔فن سوز خوانی کی اہمیت کا اندازہ سب سے پہلے علامہ رشید ترابی کو ہوا اور انہوں نے آغا مقصود مرزا مرحوم کی صدارت میں انجمن سوز خوانان پاکستان کی تشکیل کی۔ یہ انجمن آج بھی موجود ہے اور اب بھی ہر سال ۱۹ِ صفر کو ایک مجلس عزا منعقد کرتی ہے جس میں ملک بھر کے مایہ ناز سوز خواں حضرات شرکت فرماتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں جن سوز خوانوں نے اس فن کو آگے بڑھایا ان میں آفتاب علی کاظمی،استاد معشوق علی خاں،استاد اشتیاق علی خاں ، استاد واحد حسین خاں، عظیم المحسن صاحب،آغا مقصود مرزا، رضی حسن خاں ، نادر حسین خاں صاحب،جناب اختر وصی علی، جناب آباد محمد نقوی زائر،جناب زوار حسین ، محترمہ کجن بیگم اور استاد سبط جعفر آج ہم میں موجود نہیں لیکن ان کا فن ان کے شاگردوں کی شکل میں آج بھی موجود ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn