اسلام کے صوتی علوم کے سلسلے کا آج کا موضوع بڑی وسعت اور گہرائی اور گیرائی کا حامل ہے اس موضوع کا عنوان ہے سوز خوانی ۔ اس موضوع کو بھی آپ کی خدمت میں دو حصوں میں پیش کیا جائے گا۔
سوز کے لفظی اور لغوی معنی تو جلن، درد اور رنج و ملامت کے ہیں، لیکن، اصطلاحی طور پر سوز خوانی سے مراد وہ طرز ہے جس میں واقعات کربلا سے متعلق کلام کو متعین اور مخصوس انداز میں ادا کیا جاتا ہے۔نماز میں میں جو اہمیت اور حیثیت تکبیر احرام کی ہے، وہی مجلس امام حسینؑ میں سوز خوانی کی ہے۔اس فن کا آغاز ایران سے ہوا جہاں یہ فن روضہ خوانی کہلاتا تھا۔ بر صغیر پاک و ہند میں سوز خوانی کا مخزن و منبع تو لکھنؤ اور اودھ ہی تھا لیکن اسے دہلی ، آگرہ،الور، جے پور، رام پور، امروہہ، سادات بارہہ، دکن اور پنجاب میں فروغ و دوام حاصل ہوا۔قیام پاکستان کے بعد کراچی سوز خوانی کا ایک بڑا اور اہم مرکز بن گیا۔سوز خوانی کا آغاز رباعی سے ہوتا ہے، پھر سوز خواں مجلس کی ضرورت ، موقع اور محل دیکھتے ہوئے قطعہ، سوز، سلام اور پھر مرثیہ پڑھتا ہے۔ جس کی مخصوص بندشیں ہوتی ہیں۔
سوز خوانی ایک منفرد اور مشکل صنف ہے۔ اس کی اصطلاحات اور علامات وغیرہ بھی موسیقی اور دیگر اصناف کی عام اصطلاحات اور علامات سے مختلف ہیں۔ سوز خوانی میں دھن، طرز یا ترنم کو ان ناموں کی بجائے بندش کہا جاتا ہے۔ بیاض کو بالعموم بستہ کہتے ہیں ۔سوز خواں کے ساتھی یا ہم نوا بازو کہلاتے ہیں اور ان بازوؤں کا آواز ملانا یا سُر دینا آس کہلاتا ہے۔پھر سوز خوانی کے لئے نشست و برخاست کے آداب اور انداز بھی مخصوص ہیں۔یہ الفاظ اور اصطلاحات و علامات دوسری اصناف یا شعبوں میں مروج نہیں ہیں۔
سوز خوانی میں بھی کلاسیکی موسیقی کے راگ اور سر استعمال ہوتے ہیں۔ سوز خوانی میں عام طور پر ایسی بندشیں موزوں کی جاتی ہیں ، جن میں کومل اور تیور دونوں سرُوں کا متناسب اور متوازن استعمال کیا گیا ہو۔اگر مجلس دوپہر سے پہلے منعقد ہو تو اس وقت گندھار،درھم،دھیوت اور نکھاد پر مشتمل بندشیں منتخب کی جاتی ہیں۔ سہ پہر اور شام کی مجالس میں پوریا،ماروا،پوریا دھنا سری،بسنت، پوریا کلیان اور بسنت بہار سے ماخوذ بندشیں مروج ہیں۔ اول شب میں منعقد ہونے مجالس میں کدارا، ایمن کلیان، بھوپالی، شدھ کلیان اور آخر شب میں منعقد ہونے والی مجالس میں درباری، غارہ، جے جے ونتی،باگیشری اور میاں کی ملہار وغیرہ استعمال کی جاتی ہیں۔استاد معشوق علی خاں اور استاد اشتیاق علی خان کے بزرگوں نے ’’جب مشک بھر کے نہر سے عباس غازی گھر چلے‘‘ کو راگ جونپوری میں موزوں کیا تھا۔ یہی نہیں استاد واحد حسین خان نے ’’شور ہے شام کے لشکر میں کہ عباس آئے‘‘کو راگ میگھ میں موزوں کیا تھا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn