اسلام کے صوتی علوم کے سلسلے کا پانچواں موضوع ہے سماع یا قوالی۔ اس موضوع کو یہاں دو حصوں میں پیش کیا جائے گا۔
سماع کے لغوی اور لفظی معنی سننے کے ہیں۔ تاہم بر صغیر پاک و ہند کی ادب و ثقافت اور مقامی موسیقی کی اصطلاح میں سماع سے مراد مخصوص نوعیت کے کلام کی مخصوص ادائیگی ہے۔تا ہم عوام الناس میں سماع کی جو شکل مروج اور مقبول ہے اسے قوالی کہا جاتا ہے۔
وسیع تر مفہوم میں سماع کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس کا آغازاس واقعے سے ہوتا ہے جب حضور اکرم ﷺ ہجرت کے موقع پر قبا کے مقام پر پہنچے اور وہاں مدینہ کی بچیوں نے دف بجا کر حمدیہ اور نعتیہ کلام لحن میں گا کر آپ ﷺکا استقبال کیا۔پھر خواجگان چشت میں سماع کی مختلف صورتیں سامنے آتی ہیں ۔ روایات کے مطابق حضرت داتا گنج بخشؒ اور خواجہ غریب نوازؒ بھی سماع کا اہتمام کرتے تھے۔ مگر سماع اور قوالی کو موجودہ شکل میں مرتب کرنے میں بنیادی کردار حضرت امیر خسروؒ نے ادا کیا۔قوالی دراصل قول سے ماخوذ ہے۔ چونکہ ہر قوال ایک خاص آہنگ میں رسول کریمﷺ کے اس قول سے کہ من کنت مولیٰ فہذاعلی مولا سے اپنی قوالی کا آغاز کرتا ہے اس لئے اس صنف کا نام قوالی پڑ گیا۔
حضرت امیر خسروؒ سے پہلے قوالی کا وجود تو ضرور تھا لیکن بجز اس کے کہ اسے سات آٹھ گویے گاتے تھے ، قوالی کے کوئی اور اصول اور قواعد نہیں تھے۔حضرت امیر خسروؒ نے قوالی گانے کے قوانین بنائے اور اس کی گائیکی کو مختلف اصناف میں تقسیم کیا۔ جن میں اہم ترین اصناف ہیں قول، قلبانہ، نقش، گل، ترانہ، ہوا، تلاّنہ،سہیلہ،بسیط، تروٹ اور رنگ۔ان میں سے ہر صنف کی گائیکی کا اپنا ایک منفرد انداز اور طریقہ ہے۔حضرت امیر خسروؒ کے کمال فن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تقریباً آٹھ سو سال گزر جانے کے بعد بھی آج قوالی کی یہ تمام اصناف اسی طرز میں گائی جاتی ہیں جو انہوں نے ان کو ایجاد کرتے وقت بنائی تھیں۔آٹھ صدیاں گزر جانے کے باوجود نہ ان کی مقبولیت میں کوئی کمی آئی ہے اور نہ ان کی گائیکی کی کشش میں کوئی فرق پڑا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ لوک موسیقی کے بعد قوالی وہ واحد صنف موسیقی ہے جو اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی عوام و خواص میں اسی طرح مقبول ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ قوالی کے سازوں میں اضافہ ہوتا گیا۔سب سے پہلے غلام فرید صابری اور پھر نصرت فتح علی خاں قوال نے قوالی کی روائتی اور کلاسیکی موسیقی کو مغرب کے جدید آلات موسیقی سے روشناس کیا اور یوں جدید موسیقی کے سامعین کو بھی اپنی جانب متوجہ کر لیا۔آلات موسیقی کے علاوہ رفتہ رفتہ قوالی میں بھی تبدیلی آتی گئی۔پہلے پہل قوالی صرف عارفانہ اور نعتیہ کلام تک محدود ہوتی تھی مگر اب اس میں عاشقانہ موضوعات بھی شامل ہونے لگے، جسے عوام الناس نے تو پسند کیا مگر قوالی کو ایک مقدس فن سمجھنے والے افراد نے اس کی پذیرائی نہیں کی۔
اسی سلسلے کی دوسری تحریر انشااللہ کل آپ کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn