Qalamkar Website Header Image

جانے کب ہوں گے کم، ہزارہ برادری کے غم

ہر ذی شعور اور انسانیت کا درد رکھنے والے کے ذہن میں یہ پہیلی نما سوال ضرور پیدا ہوتا ہوگا کہ آخر وہ وجوہات ہیں کیا جن کی وجہ سے شیعہ ہزارہ کے قتل کی سنچریوں کا اعلانیہ اعتراف کرنے والا رمضان مینگل کبھی گرفتار کیا جاتا ہے اور پھر کچھ عرصے بعد رہا کر دیا جاتا ہے۔ پھر یہی رمضان مینگل اپنی تنظیم کے دیگر اراکین کی طرح الیکشن لڑتا بھی نظر آتا ہے۔ کیا آپ کو یہ سب کچھ خلاف عقل محسوس نہیں ہوتا؟ آخر ایسے کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ شخص اور اس تنظیم کے دیگر تکفیری سرغنہ آزاد ہیں؟ چلیں میں مان لیتا ہوں کہ یہ لوگ تائب ہوچکے ہیں اور قومی دھارے میں آنا چاہتے ہیں۔ لیکن کون گارنٹی دے سکتا ہے کہ نچلی سطح تک پھیلے ہوئے ان کے کارندے جو ان کی وجہ سے برین واشڈ ہوچکے، وہ بھی تائب ہوئے ہوں گے؟ مجھ سے پوچھیں تو کوئی یہ گارنٹی نہیں دے سکتا۔ آپ صرف اس سوشل میڈیا پر اس فکر سے تعلق رکھنے والوں کا طرز عمل دیکھ لیں۔ یہ لوگ تکفیر تو کرتے ہی ہیں، ساتھ میں کسی شیعہ کے قتل پر مبارک بادیں دیتے اور خوشی کا اظہار کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر رمضان مینگل جیسے لوگ آزاد کیوں ہوتے ہیں اور ان کے اعلانیہ اعتراف قتل پر ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ مجھے اس کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ یہ لوگ بطور پراکسی کام کرتے ہیں۔ اگر آپ ہزارہ مشران کی باتیں بغور سنیں تو اس میں ایک جملے کی تکرار نظر آئے گی کہ ہمیں وار پالیٹکس میں قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔ گویا کچھ ایسا ہے جس کا فرنٹ فیس تکفیر کی بنیاد پر قتل ہے اور پس منظر اہداف کچھ اور۔ ورنہ عقل کسی صورت اس بات کو تسلیم نہیں کر پاتی کہ ایک اعلانیہ قاتل آزاد کیوں ہے۔ افسوس البتہ اس بات کا ضرور ہے کہ اس تمام وار پالیٹکس میں نسل کشی کا نشانہ اس برادری کو بنایا گیا جو بنیادی طور پر پاکستان سے محبت رکھتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:  مفلوج تعلیمی پالیسی اور حکومتی سنجیدگی - محمد نعمان کاکاخیل

اگر آپ کو یاد ہو تو گزشتہ برس مستونگ میں ایک سیاسی جلسے پر ہولناک خودکش حملے میں 149 افراد جاں بحق ہوئے تھے جن میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سراج رئیسانی بھی شامل تھے۔ حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ اس ہولناک حملے کےخلاف ہر درد دل رکھنے والے نے افسوس کا اظہار کیا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر وہ مخصوص اکثریتی طبقہ سب سے زیادہ احتجاج کرتا نظر آیا تھا جو عموماََ دہشتگردی کے دیگر واقعات پر یا خاموش رہتا ہے یا کوئی تاویل گھڑتا نظر آتا ہے۔ وہی طبقہ جو گزشتہ دنوں نیوزی لینڈ کے غم میں گھلا جاتا تھا اور آج ہزارہ شیعہ کیلئے خاموش ہے۔ بہرحال، اس طبقے کے احتجاج کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سراج رئیسانی بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف ایک مضبوط آواز تھے اور اینٹی بھارت بیانیہ کو شدت کے ساتھ پیش کرنے میں شہرت رکھتے تھے۔ لیکن جو بات زیادہ قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ ان کی رمضان مینگل اور اورنگزیب فاروقی کے ساتھ ملاقاتوں کی تصاویر بھی سامنے آتی رہی تھیں۔ بس اس سے زیادہ میں مزید کچھ اور نہیں لکھوں گا۔

مستونگ میں آپ نے اکثر ملٹری آپریشن کے بارے میں سنا ہوگا۔ یہ آپریشن لشکر جھنگوی، لشکر جھنگوی العالمی اور داعش کے خلاف کیے جاتے رہے جن میں ان تنظیموں کے اکثر دہشتگردوں کے مارے جانے کی خبریں بھی سامنے آتی رہیں۔ مستونگ میں ہی اکثر ہزارہ شیعہ کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوئے جن میں کراچی میں پڑھنے والے جواں سال مرتضی ہزارہ سمیت تین ہزارہ شیعہ کی ٹارگٹ کلنگ بھی شامل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مستونگ میں لشکر جھنگوی، لشکر جھنگوی العالمی اور داعش کے ٹھکانوں اور ٹریننگ کیمپس کے خلاف آپریشن کیا جاتا رہا ہے تو یہ رمضان مینگل کون ہے یہ کیوں آزاد ہے اور یہ الیکشن کیوں لڑتا ہے؟ اگر مستونگ میں چھپے ہوئے دہشت گرد ہیں تو کوئٹہ میں آزاد گھومنے والا رمضان مینگل دہشت گرد کیوں نہیں؟ جب کہ ان دونوں کا تعلق ایک ہی مائینڈ سیٹ اور ایک ہی تکفیری آئیڈیالوجی سے ہے۔ میرے نزدیک تو ان دنوں میں کوئی فرق بھی نہیں۔ جبکہ خود ہماری انٹیلیجنس ایجنسی آئی بی کے سربراہ کہہ چکے ہیں کہ داعش لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے آپس میں تعلقات ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  لڑکی کی عزت | شاہانہ جاوید

سرغنہ لاکھ تائب ہونے کا ناٹک کرتے رہیں۔ ان کے برین واشڈ کارکن کب اچھے دہشت گرد سے برے دہشت گرد بن جائیں، کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ کیا آپ بھول گئے کہ شکار پور میں شیعہ مسجد پر حملہ کرنے کیلئے آنے والا دہشت گرد عثمان کراچی کے مدرسہ ابوہریرہ سے پڑھا تھا، سوات کا رہنے والا تھا اور بلوچستان سے ٹریننگ لے کر آیا تھا۔ 
ہزارہ نمائندگان کی طرف سے بار بار وار پالیٹکس کے الفاظ دہرائے جانے پر میرے ذہن میں یہ سب کچھ آیا۔ یہ سب لکھتے ہوئے افسوس بھی ہوا کہ بلوچستان کی اس الجھی ہوئی صورتحال میں اس ہزارہ شیعہ قوم کو دو دہائیوں سے نا حق قتل کیا جارہا ہے جس کا ہمیں احسان مند ہونا چاہیے کہ ہم نے بھارت کے خلاف جو جنگ جیتی، اس کا سپہ سالار جنرل موسیٰ اسی قوم سے تھا۔

افسوس کبھی لشکر جھنگوی ان کے علاقوں میں پمفلٹ پھینکتی ہے کہ پاکستان چھوڑ دو ورنہ مارے جاؤ گے اور کبھی رمضان مینگل ان کے قتل پر کوئٹہ کی سنچری جیسے ترانوں پر جھومتا نظر آتا ہے۔ روتے ہیں تو ایک سابقہ وزیر اعلی ٹشو پیپر کے ٹرک بھیجنے کا اعلان کرتا نظر آتا ہے۔
جانے کب ہونگے کم
ہزارہ برادری کے غم

حالیہ بلاگ پوسٹس