زینی اپنے گھر کے کچے ویہڑے میں ایک چوبی چوکی پر بیٹھی لسّی کے لیے دودھ بلو رہی تھی۔ ہاڑھ کی ساتویں شب کی خنک خاموشی ہر سو چھائی ہوئی تھی۔ وقفے وقفے سے باڑے میں بندھی بکریوں کے ممیانے کی یا آس پڑوس کے گھروں میں برتن بجنے کی آواز پرسکون خاموشی کے تسلسل کو توڑ دیتی تھی۔ کبھی کبھی ہوا کا کوئی آوارہ جھونکا دبے پاؤں آتا تھا اور صحن کے عین وسط میں لگے دیسی شہتوت کے پتّوں سے کوئی بھید بھری سرگوشی کر کے، اُسی طرح دبے پاؤں واپس لوٹ جاتا تھا۔ بڑے کمرے کے سامنے زینی کا عمر رسیدہ باپ کرمو افیون کی ایک گولی نیم گرم دودھ کے ساتھ حلق سے اتارنے کے بعد، میلی سی ایک چادر اُوڑھے گہری نیند سو رہا تھا۔ چارپائی کے قریب ہی بھورے رنگ کی ایک بلی بیٹھی اونگھ رہی تھی مگراِس طرح کہ جیسے ہی اُس پر نیند کا غلبہ طاری ہونے لگتا اور اس کی نازک سی گردن ڈھیلی پڑ کر ایک طرف کو لڑھکنے لگتی ، تو وہ پھریری لے کر پھر سے جاگ اُٹھتی تھی۔ اِس مشق کے دوران کبھی کبھی وہ اکا دکا ریشمی سی میاؤں کی آواز نکال کر زینی کو اپنی موجودگی کا احساس بھی دلا دیتی تھی۔ دودھ بلوتے ہوئے زینی نے یوں ہی اُچٹتی سی ایک نگاہ آسمان پر ڈالی، تو مارے خو ف دہل کر رہ گئی۔ اُس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی ایک چیخ برامد ہوئی۔ گھبرا کر اُس نے مدھانی کے گر د لپٹی پٹ سن کی رسی کو ایک زور دار جھٹکا دے ڈالا۔ سَت رنگی مدھانی اس قدر زور سے چاٹی کے ساتھ ٹکرائی کہ وہ پھوٹ گئی، اور دودھ جو ابھی لسّی بننے کے عمل میں تھا ، صحن کے کچے فرش پر بہہ نکلا۔ بے فکری سے اونگھتی بلی یہ شور سن کر بدکی اور مارے خوف جو زقند بھر کر احاطے کی دیوار پر سے پھلانگ جانا چاہا، تو اس کوشش میں دیوار کے ساتھ لگے چوبی کارنس سے جا ٹکرائی۔ کارنس پر دھرے دھات کے برتن آپس میں ٹکرا کر بلند آوازوں میں بج اُٹھے۔ اس مہیب شور کی آواز کرموکے کانوں تک پہنچی تو وہ ہڑبڑا کر چارپائی پر اُٹھ بیٹھا اور اپنی مینڈک کی سی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو صحن میں اِدھراُدھر پھرا کر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرنے لگا کہ آخر اُس کے سوتے ہوئے گھر پر کیا بپتا آن پڑی۔ اُدھر زینی چوکی پر یوں دم سادھے بیٹھی تھی جیسے کسی جادوگر نے اسے طلسم کے زور پر پتھر کر دیاہو۔
"ارے لڑکی کیا ہوا؟ یہ پتھر بنی کیوں بیٹھی ہے،اور یہ شور کیسا تھا؟ ” کرمو نے روکھے لہجے میں استفسار کیا۔
سراسیمگی اور دکھ کے ملے جلے سے اثرات زینی کے زرد پڑ تے چہرے سے مترشح تھے۔ اُس بیچاری کے منہ سے فقط یہ الفاظ ہی نکل سکے۔ "اباوہ چاند”۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی سبک سی انگلی پوربی افق کی سمت اُٹھا دی۔
کرمو نے ناگواری سے منہ پھیر کر آسمان کی طرف دیکھا جہاں اُدھورا چاند بجھا بجھاسا چمک رہاتھا۔ دھیمی دھیمی سی نارنجی رنگ روشنی کے ہالے نے چاند کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔
"دُر فٹے منہ تیرا اوے۔ بھلا بندہ پوچھے ایسا تو نِت روز ہو تا رہتا ہے، تو کیا تُو پوری زندگی ڈنگروں کی طرح ایسے ہی تَریتی رہے گی۔ خدا بخشے تیری ماں کو ۔ وہ بھی ایسے ہی باؤلی ہوجایاکرتی تھی”۔ یہ کہتے ہوئے کرمو نے اپنے بھدے سے سر کو یوں دائیں بائیں حرکت دی ، جیسے بھینس کے سینگوں پر کوئی کوا بیٹھ جائے ، تو اسے اُڑانے کے لیے اپنا بڑا سا سر اِدھر اُدھر ہلاتی ہے۔ پھر ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ اُس کی قہقہے کی آوازکچھ ایسی تھی جیسے کوئی بند غار میں بڑے بڑ ے پتھر لڑھکا رہا ہو۔
"لیکن ابا تُو چاند کو غور سے دیکھ تو سہی۔ ۔ ۔ ” زینی کی آواز رُندھ گئی۔ ” تجھے کیا نہیں یاد بے بے کیا کہتی تھی؟”
"یا د کیوں نہیں۔ مت ماری کہتی تھی کہ جب بھی چاند کے چار چفیرے مالٹائی لو کا دائرہ دیکھو، تو سمجھ جاؤکہ دنیا والوں پر کوئی بلا نازل ہونے والی ہے ۔آخر اس کے اپنے ساتھ بھی تو۔۔۔” کرمو جیسے کوئی بڑا انکشاف کرتے کرتے رک گیا۔
"تو پھر۔۔۔” زینی نے داہنا ہاتھ ہوا میں نچاتے ہوئے استفسار کیا۔
"تو پھر کیا؟ چوکی سے اُٹھ اور جا میرا پتر ! وہی کچھ کر جو تیری عقلاں ماری ماں تجھے سکھا گئی ہے۔ لیکن اب اگر مجھے چیں چو ں کی زرا سی بھی آواز آئی تو جوتے مار مار کے چمڑی ادھیڑ دوں گا۔” زینی شاید کچھ کہنا چاہتی تھی مگر کرمو نے مہلت نہ دی۔ افیون اور چرس کی باس میں رچی چادر منہ پر کھینچ کر پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگا۔
زینی کے مرحومہ ماں رحمت بی بی اوّل درجے کی توہم پرست عورت تھی۔ اُس نے توہم پرستی کو باقاعدہ ایک فن کی حیثیت بخشی۔ رحمت بی بی کی جدت پسند طبیعت نے نئی نئی صنعتوں کی بدعتوں اور اوہام کو جنم دیا۔ جب امتدادِ زمانہ سے چلے آتے بھانت بھانت کے اوہام میں رحمت بی بی کے لیے کوئی کشش باقی نہ رہی ، تواس کے ذہنِ رسا نے چاند کے گرد نارنجی روشنی کا ہالہ بننے کے عمل کو کسی بڑی بلا کے نازل ہونے کا پیش خیمہ قرار دیا۔ جب بھی چاند نارنجی رنگ حلقے کی قید میں آتا، تو گھر بھر ایک تَھرتھلی مچ جاتی۔ رحمت بی بی باآوازِ بلند "جل تُو ، جلال تُو ،قدرت کمال توُ، آئی بلا کو ٹال تُو” کاورد کرتے ہوئے رسوئی کا رخ کرتی۔ ایک دیے میں دیسی گھی ڈالتی۔ چاہے گھر میں اپنے کھانے کے لیے پیاز کی ایک گانٹھ تک نہ ہومگر دیے میں ہمیشہ دیسی گھی ہی ڈالا جاتا۔ اگراپنے گھرمیں دیسی گھی نہ ہوتا، تو وہ گاؤں کے کسی گھر سے مانگ لاتی۔ آنگن میں برتن سے برتن بجتا، سیاہ دھویں کے مرغولے چولہے سے نکل کر آسمان کی طرف لپکتے۔ رحمت بی بی چراغ کو ہتھیلی پر دھرے، ہانپتی کانپتی اپنے فربہ جسم کو بمشکل سنبھالتی جیسے تیسے لکڑی کی بوسیدہ سیڑھیاں چڑھ کر ، چھت پر جا پہنچتی۔رحمت بی بی کو اکثر کمر درد کی شکایت رہا کرتی تھی۔ برسات کے دنوں میں جب چھت کو ٹپکنے سے بچانے کی خاطر، مٹی اور گوبر کا لیپ کرنے کی ضرورت پیش آتی، تو یہ کام ہمیشہ کرموہی کو کرنا پڑتا تھا۔ البتہ چراغ جلانے کی خاطر رحمت بی بی ہمیشہ خود چھت پر جاتی ۔ ایسے موقعوں پروہ کمر درد کویوں بھول جاتی جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔
اُس نے چھت کی منڈیر پر گارے اور کچی اینٹوں سے ایک چھوٹاسا طاقچہ بنا رکھا تھا۔ وہ چراغ کو اس طاقچے میں رکھ کر بتّی کو دیا سلائی دکھا دیتی۔ زردی مائل روئی سے بنی بتّی پہلے دھویں کی ایک کثیف لاٹ فضا میں اُگلتی ، پھر بھڑک کر جل اُٹھتی۔ چراغ کی زرد روشنی کو پہلی نظر دیکھتے ہی رحمت بی بی کا آدھے سے زیادہ خوف رفع ہو جاتا، کیونکہ روشنی اچھی ہے۔ اس لیے اچھی ہے کیونکہ دن کورات سے جدا کرتی ہے ، اور اس لیے بھی اچھی ہے کہ اُس نے بھی روشنی کے لیے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا جس کی روح آفرینش سے پہلے اتھاہ پانیوں پر جنبش کرتی تھی، جس نے بڑا نّیر بنایا کہ دن پر حکمران ہو اور چھوٹے نّیر کو رات پر حکمرانی بخشی۔
جتنی دیر میں رحمت بی بی چراغ جلاکر نیچے پہنچتی، اُتنی دیر میں زینی چولہے میں اُپلوں اور خشک ٹہنیوں کو جوڑ کر آگ سلگا چکی ہوتی۔ تیز آنچ پر سوجی کا مانڈہ تیا ر کیا جاتا۔ شنید ہے کہ رحمت بی بی آدھ کلو سوجی میں سوا دو سیر دیسی گھی کھپا دیتی تھی۔ جوں ہی سوجی کے مانڈے کی اشتہاآور مہک فضا میں پھیلتی، گاؤں والوں کی نگاہیں بے اختیار آسمان کی طرف اُٹھ جاتیں کہ گاؤں والوں نے مانڈے کی باس اور مالٹائی روشنی میں لپٹے چاند کے درمیان ایک بندھن قائم رکھا تھا۔ برسوں اپنی خودساختہ بدعتی رسم پر قائم رہ کر رحمت بی بی ہی اس بندھن کی بنیاد بنی تھی۔
جیسے مردار کی بوپا کربھوکے گدھ دیوانہ وارنیم دائروں میں چکر کاٹتے اُڑے جاتے ہیں، مانڈے کی باس کچھ ویسا ہی ردِ عمل گلیوں میں کھیلتے بچوں میں پیدا کرتی۔ گاؤں کے بچے میلی کچیلی بھوتیاں اُوپر اُٹھائے، حلوے کی باس کو نتھنو ں کے راستے رگ وپے میں اُتارتے، رحمت بی بی کے گھر کے باہر جمع ہو جاتے۔ وہ رحمت بی بی کے گھر کے کواڑ سے یوں چمٹ جاتے تھے جیسے مکھیاں کسی میٹھی چیز سے چپک کر بیٹھ جاتی ہے۔ بالآخر ایک طویل انتظار کے بعد دروزاہ کھلتا اور رحمت بی بی پیتل کا ایک تسلہ سر پر اُٹھائے دروازے کے عقب سے نمودار ہو تی۔ اُسے سر پر مانڈے سے بھرا تسلہ اُٹھائے دروازے سے باہر نکلتا دیکھ کر بچوں کی آنکھیں یوں چمک اُٹھتیں جیسے ہفت گنج کی جھلک دیکھ لی ہو۔ کچی پگڈنڈیوں پر سج سج کر قدم دھرتی آگے آگے وہ ہوتی اور پیچھے پیچھے میل سے اَٹے چہروں، پھٹے کپڑوں اور ننگے پیروں والے بچوں کا انبوہ ہوتا۔ راستے میں جو بھی کوئی اس ہجومِ طرب انگیز کو دیکھتا ، وہ سمجھ جاتا کہ ماسی رحمت مانڈے کی نیاز چڑھانے پیر معظم علی شاہ کی درگاہ پر جا رہی ہے۔
پیر معظم علی شاہ کی درگاہ گاؤں سے کوئی آدھ میل کی مسافت پر تھی ۔ بڑے شہروں میں بڑے پیرہوتے ہیں اور اسی مناسبت سے ان کی درگاہیں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ ہزار ہا رنگ برنگ برقی قمقمے اندھی راتوں کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں بھی درگاہوں کی مقدس عمارتوں کو بقعہ نور بنائے رکھتے ہیں۔ پھر بڑے بڑے لنگر ہوتے ہیں جہاں سے ایک دنیا اپنے بھوکے شکم سیر کرتی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند ، ملک کے کونے کونے سے مقدس چوکھٹوں پراپنے ماتھے ٹیکنے آتے ہیں ۔ بڑے بڑے چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔سائل من چاہی مرادیں پاتے ہیں۔
پِنڈرَتا کُھو چونکہ ایک چھوٹا سادور افتادہ اپنی گم نامی میں مست گاؤں تھا سو یہاں کے پیر کی درگاہ بھی لامحالہ چھوٹی ہی ہونی تھی۔ ایک بڑا کمرہ تھا ، جس کی سیلن زدہ اینٹوں کی ٹھنڈی باس میں رچی تاریکی میں پیرمعظم علی شاہ اپنی قبر میں محوِ استراحت تھے۔ درگاہ کے مرکزی دروازے کی دائیں طرف مجاور کی چھوٹی سی ایک کوٹھری تھی ،ایک طرف کبوتروں کی چند کابکیں اور مختصر سا احاطہ۔ احاطہ کے گرد کچی اینٹوں کی ،کوئی چار فٹ اونچی دیوار تھی جو بے رحم موسموں کی نذرہو کرجگہ جگہ سے گر چکی تھی۔ جہاں جہاں سے دیوار زمین بوس ہو چکی تھی ، وہاں سے سارا دن گاؤں والوں کے ڈھور ڈنگروں کی درگاہ کے اندر آزادنہ آمد و رفت جاری رہتی تھی۔ مجاور کبھی تو ایک لمبی چھڑی کی مدد سے اُن کو احاطے سے باہر ہانک دیتا اور کبھی اگر زیادہ تھکا ہوتا یاچر س اور افیون کا خمار بخار کی طرح جسم کو آلکسی میں جھکڑے ہوتا ، تو اپنی کوٹھر ی میں بے پروا پڑا رہتا۔ جانور بلاِ تکلف درگاہ کے صحن میں بول و براز پھیلاتے رہتے۔ جب خمار کا طغیانی پر آیا ہوا دریا اتر جاتا تو وہ کوٹھری سے نکلتا اور گاؤں والوں کو ماؤں بہنوں کی گالیوں سے نوازتا، ایسی گالیوں سے نوازتاجن میں مردانہ وزنانہ اعضائے تناسلہ کا ذکر کثرت سے آتا ہے، جانوروں کا گوبر صاف کرنے لگتا۔
درگاہ کی پچھمی دیوار کے ساتھ شہتوت اور بکائن کے کچھ درخت ایک قطار میں لگے ہوئے تھے۔ رحمت بی بی انہی شہتوت کے درختوں کے بڑے بڑےدل کی شکل سے مشابہ پتوں پر حلوہ رکھ کر بچوں میں تقسیم کرتی۔ بچے پتوں کو ہتھیلوں پر سجائے رحمت بی بی کے گرد جمع ہو جاتے۔ وہ ہر بچے کے ہاتھ پر حلوے کی مناسب مقدر رکھتی جاتی ۔ بچے قابو میں نہ آنے والی ربڑ کی ست رنگی گیندوں کی مانند وہیں درگاہ کے صحن میں ادھر ادھر بکھر کر حلوے پر پل پڑتے۔ حلوے کا ہر نوالہ ان کے گرسنہ دہنوں کو ایک نئے سواد سے آشنا کرتا۔ نیاز جب تمام بچوں میں بٹ جاتی تو بقایا حلوہ تسلے سمیت مجاور کی کوٹھری میں بھجوا دیا جاتا۔جتنی دیر مجاور حلوہ چٹ کرنے میں صرف کرتا اتنی دیر کی مہلت پا کر رحمت بی بی پیرمعظم شاہ کی قبر کی پائینتی رکھی نمک کی تھیلی سے چٹکی بھر نمک اُٹھا کر بطور تبرک چاٹ لیتی کہ دفعِ بلیات و موجبِ شفائے کاملہ تھا، کہ سجن ڈھیر اور دشمن زیر رہتے تھے۔
امتدادِ زمانہ سے پیر معظم علی شاہ کے بارے میں گاؤں والوں کے درمیان ایک روایت چلی آتی تھی کہ کیسے انھوں نے اپنے دشمنوں کر زیرکیا تھا۔ بڑے بوڑھے اس روایتِ دلنشیں کو یوں حکایت کرتے ہیں کہ پیر دستگیر قبلہ پیر معظم علی شاہ ایک روز اپنے گھرکے احاطے کی دیوار پر بیٹھے مظاہر فطرت میں اُس کی ذات کے بھید کھوجنے میں مصروف تھے۔ دستِ مبارک میں گھوڑوں کو مارنے والی ایک سیاہ چرمی چابک تھام رکھی تھی ، جو وقفے وقفے سے اپنے ہی مبارک زانوں پررسید کرتے جاتے تھے ۔ زیرِ لب کلماتِ طیبہ کا ورد بھی ایک تسلسل کے ساتھ جاری تھا۔ اِسی اثنا میں نزدیک سے ایک بارات کا گزرہوا۔ بارات کسی دور کے گاؤں سے مسلسل کئی گھنٹوں کا پیدل سفر طے کرتی آ رہی تھی۔ تکان سب کے دھول سے اٹے چہروں اور سست خرامی سے عیاں تھی۔ بارات کے آگے آگے چلنے والے میراثی بھی ڈھول گلے میں لٹکائے، سر نیہوڑائے ، اس انتظار میں سست رفتار سے چلتے تھے ، کہ کب لڑکی والوں کے گاؤں پہنچیں ، جہاں پہنچ کر انہیں پھر سے ڈھول پیٹنے تھے اور سوکھے گلوں کا تمام زور صرف کر کے طوطیوں سے فلمی گانوں کی دھنیں برامد کرنی تھیں۔ اس کرب ناک جسمانی اور ذہنی ا مشقت کے بعد ہی بھینس کے گھنے شوربے اور خوشبودار چاولوں کے پلاؤ نے ان کے پہروں سے بھوکوں شکوں میں اتر کر انہیں تسکین پہنچانی تھی۔ دلہا سمیت کئی باراتی زرق برق لباس پہنے گردنیں اکڑائے سینے پھلائے عالی النسل گھوڑوں پر سوار تھے۔ کسی سر پھرے لونڈے نے پیر معظم کو ہاتھ میں چابک تھامے دیوار پر بیٹھے دیکھا ، توشوخی میں آکر اپنے گھوڑے کی ریشمی ایال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے طنزئیہ لہجے میں بولا "پیر جی اپنے گھوڑے کو آگے بڑھائیے نا ،یا بیچارہ دوڑ دوڑ کر نڈھال ہو گیا ہے۔” پیر جی نے حتی الوسع درگزر سے کام لیا ، مگر اس بدبخت لونڈے کی گستاخی تمام حدیں پار کرتی گئی۔ پیر جی کی خاموشی سے شہ پاکر باقی باراتی بھی پیر جی کا ٹھٹھا اُڑانے لگے۔ صاحب ِکرامت پیر سخی سعادت علی شاہ ،جن کے حکم سے پون بھی ٹھہر جاتی تھی، اور جن کی ابرو کا ایک حفیف سا اشارہ پاکر ، شوکتے دریا اپنا رستہ بدل لیتے تھے ، اُس اَن داتا کے اکلوتے روحانی جانشین کا بارات ٹھٹھا اُڑانے لگی۔پیر جی بھی انسان تھے۔ آخر ان کے صبر کا پیمانہ بھی چھلک اُٹھا۔ پیر جی نے ایک خشمگیں نگاہ بارات کے جلوس پر دوڑائی ، اور دیوار پرایک زوردار چابک رسید کرتے ہوئے جلا ل سے بھرپور بلند آواز میں حکم دیا ” چل میرے گھوڑے ! ” باراتی یہ دیکھ کرحیران و خوفزدہ رہ گئے کہ دیوار نے ایک مشکی گھوڑے کی صورت دھاری اور پیرجی گھوڑے پر دھول اُڑاتے بارات کی طرف بڑھے۔ وہ لڑکا جس نے پیر جی کا ٹھٹہ اُڑانے کی جرات کی تھی، اچانک گھوڑے کی پیٹھ پر سے زمین پر آ ن گرا ، اور سرتا پا خاک آلود ہوا، اور سزا بے ادبی کی پائی۔ باقی باراتیوں نے جو اُس کا یہ حشر دیکھا تو اپنے گھوڑوں سے اتر گئے اور پیر جی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی کے طالب ہوئے۔ سو اب جو بھی پیر جی کی تربت کی پائینتی دھر ا نمک چاٹ لیتا تھا ، وہ اُن کے دامن عاطفت میں پناہ پاتا تھا۔ اُس کے سجن ڈھیر اور دشمن زیر رہتے تھے۔
۔
"اُس دن اماں بھی یہیں اسی جگہ پیڑھی پر بیٹھی آٹا گوندھ رہی تھی۔۔میں چولہے کے پاس بیٹھی چاول صاف کر رہی تھی۔۔او ر عالاں میرے پاس بیٹھی مجھے گامو جولاہے کی بیٹی نشو اور چوہدری اللہ داد کے پتر شہباز کے معاشقے کا قصہ خوب مزے لے لے کر سنا رہی تھی۔۔ لیکن میں سن کہاں رہی تھی؟ میں تو من ہی میں گاؤں کے پنگھٹ کے پاس والے پیپل کی چھاؤں میں بیٹھی ٹکٹکی باندھے اپنے حیات بخش کی موہنی صورت دیکھ رہی تھی۔۔اور نشو اپنی ہی دھن میں بولے چلی جا رہی تھی۔۔اباکب کا افیون کی گولی کھا کر سو چکا تھا۔۔چودھویں کا چاند ہمارے چوبارے پر بیٹھا مجھے تکتا تھا اور میں کن انکھیوں سے اسے تکتی تھی۔۔ کتنا روشن چاند تھا اس روز۔۔پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے چاند نے اپنے گرد مالٹائی لو کا دائرہ کھینچ لیا تھا۔ اُدھر سے اماں کی "ہائے او ربّا” کی آواز آئی تھی۔۔اور وہ "جل تُو جلال تُو ” کا ورد کرتی رسوئی میں جا گھسی تھی۔۔ بدلی کا صرف ایک ٹکڑا تھا جو چاند کے گرد کتنی ہی دیر سے منڈلا رہا تھا۔۔مگر۔۔جب اماں دیا ہاتھ پر دھرے کوٹھے کی اور لپکی جاتی تھی۔۔تب تک کاجل کا دریا اُمڈ کر سارے آسمان کو ڈھک چکا تھا۔۔
ہو اایسے دروازوں کی درزوں سے سیٹیاں بجاتی گزرتی تھی ،جیسے رات کی آخری ریل کا وِسل اتھا ہ خاموشیوں میں گونجتا ہے۔۔۔اور جب اماں۔ ۔۔ کوٹھے ۔۔پر دیا جلاتی تھی۔۔۔۔تو۔۔ہوا کے ایک سر پھرے جھونکے نے۔۔۔” باڑے میں بندھی بکری کے ممیانے کی آواز نے زینی کی بے مہار سوچوں کے تسلسل کو توڑ دیا تھا۔
"ہائے میری بے بے! ” زینی نے اپنے غول سے بچھٹری کسی کونج کی طرح ہُوک بھری اور پیڑھی سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ "جل تُو جلال تُو۔ ۔ ۔”کا پیہم ورد زباں پر جاری ہوا۔ رسوئی کا رخ کیا۔ کارنس پرایک کونے میں دھرا مٹی کادیا ہاتھ بڑھاکر اُٹھایا۔ دیے میں دیسی گھی ڈالا۔ دیے کی بتی کا جلا ہوا حصہ انگلیوں کی پوروں کے بیچ مسل کر جدا کیا۔ اورتیز تیز قدم اُٹھاتی چھت کے طرف بڑھی۔ اس سمے اگر کوئی اجنبی اسے دیکھتا تو اُس پر آسانی سے رحمت بی بی کا دھوکہ کھا جاتا۔ چال میں وہی اضطراب ، لہجے میں اسی خود ساختہ خوف کا شائبہ ، ہاتھوں کی حرکات و سکنات میں وہی عجلت کا سا عنصر، غرض زینی اس لمحے جب کہ وہ دیے جلانے چھت کی اور لپکی جاتی تھی، ہوبہو اپنی مرحومہ ماں کا پرتو دکھتی تھی۔
اب زینی دیا جلا چکی تھی۔ چاند بدستور انگارہ بنا دہکتا تھا۔ زینی خلاء میں کسی نامعلوم نقطے پر نگاہیں مرکوز کیے مسکرائے جاتی تھی ۔ اُس کے چہرے پر دیے کی ناچتی لو نے سایوں کا ایک عجب کھیل سا رچا رکھا تھا۔ فضا بھی انگڑئیاں لے کر جاگ اُٹھی تھی۔ ہوا کے آوارہ جھونکوں کے آنے جانے میں بھی ایک تسلسل سا پیدا ہوچکا تھا۔ ابر کے کئی چھوٹے چھوٹے ٹکڑےاب ایک سیاہ بادل کی شکل اختیار کیے ، تیزی سے چاند کی طرف بڑھتے چلے آتے تھے۔ گویا اُسی پرانے ناٹک کو دوبارہ کھیلنے کی تیاری کی جارہی تھی ، جو آج سے کئی برس پیشتر ، اِسی گھر میں کھیلا گیا تھا۔ ناٹک کے ہدایتکار نے اس بات کا خاص خیال رکھا تھا کہ کھیل کی جزئیات میں زرا برابر بھی فرق نہ آنے پائے۔ سب کچھ ہو بہو ویسا ہی ہو جیسا اِس سے قبل ہوا تھا۔ فرق تھا تو بس اتنا کہ ایک کردار کی جگہ دوسرے کردار نے لے لی تھی ۔ ناٹک کی سیٹنگ تکمیل کو پہنچی ۔ اِدھر بادل نے چاند پر اپنا سایہ ڈالا۔ اُدھر ہوا کے ایک تند جھونکے نے زینی کا آنچل اُڑا کر جلتے دیے کی لو پر لا رکھا مگر وہ اسی طرح بے خبر بیٹھی آسمان کو تکتی رہی۔ جب اُسے اپنے ماس کے قرب میں آگ کی آنچ محسوس ہوئی تو پلٹ کر جلتے آنچل کو دیکھا۔ حواس باختہ ہو کر اسپرنگ کی ماننداپنی جگہ سے اچھلی اور انجانے میں منڈیر سے آگے کی طرف بھاگنے کی جو کوشش کی تو ایک زبردست آواز کے ساتھ ، سر کے بل نیچے صحن میں جاگری، جیسے آج سے کئی برس پیشتر رحمت بی بی گری تھی۔ زندگی کا پرندہ اپنے پَر پھڑپھڑاتا آسمانوں کی بلندیوں میں گم ہو گیا۔
زینی کی ناگہاں موت کے بعد جب اگلی بار چاند کو نارنجی لو کے ہالے نے اپنی قید میں لیا تو رحمت بی بی کی منڈیر پر نہ دیا جلا، نہ ہی پیر معظم علی شاہ کی درگاہ پر نیاز بٹی۔ گاؤں بھر میں فقط یہی ایک منڈیر تھی جس پر کوئی دیا جلانے نہ آیا تھا، ورنہ اس بار ہر گھر کی منڈیر پر اَن گنت چراغوں کی مدھم لو یں کانپتی تھیں۔ ایسے جیسے کسی سنسان اندھیری رات کی کوکھ میں ،کسی اُجاڑ قبرستان میں مردہ ہڈیوں سے نکلے فاسفورس کے جگنو اُڑتے پھرتے ہیں۔ ہر گھر کے صحن سے دھویں کے مرغولوں کے مینار آسمان میں بلند ہوتے تھے، مانڈے کی باس نتھنوں میں رچتی تھی، "جل تُو، جلال تُو” کے ورد زبانوں پر جاری ہوتے تھے۔ چھوٹے نّیر نے بڑے نیّر پر فتح پا لی تھی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn