یہ نجم الدین احمد کا افسانوی مجموعہ ہے جسے الحمد پبلی کیشنز نے چھاپا ہے اور قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ کتاب کا انتساب اپنے مرحوم والدین کے نام کیا ہے ۔ خوبصورت سرورق جس پر ان کی تصویر اور ٹائٹل سے کنندہ ہے اور دوسری طرف ان کا مختصر تعارف اور کتب کی معلومات ہیں۔ کتاب کا دیباچہ خالد فتح محمد نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب سترہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔
اس کے علاوہ بہاول نگر کی اس ادبی شخصیت کی مختلف تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’آؤ بھائی کھیلیں‘ رائٹر گلڈ ایوارڈ یافتہ ہے۔ انہوں نے کئی کتابوں کے تراجم بھی کئے ہیں۔وہ ادبی دنیا کی ایک ایسی شخصیت ہیں جو کسی تعارف کی مختاج نہیں اور سالوں سے ادبی شاہراہ پر گامزن ہیں۔اگر یوں کہا جائے کہ وہ افسانوی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔
کیونکہ ان کے افسانے اپنی خاص خصوصیات کی وجہ سے پڑھنے والوں میں خاصی مقبولیت کے حامل ہیں، ان کے افسانے پڑھنے والوں کو بوریت کا احساس نہیں ہونے دیتے۔ اگر انہیں پوری دلجمعی سے پڑھا جائے تو پڑھنے والے اذہان آسانی سے پورے افسانے کو اپنی گرفت میں لے سکتے ہیں اور ان کے افسانوں کے کردار پڑھنے والوں کو ایسا لطف دیتے ہیں گویا وہ تھری ڈی ٹیکنالوجی کے موافق آنکھوں کے سامنے لائیو ہوں۔ ان کے افسانوی مجموعوں کو کسی پیش لفظ کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ پڑھنے والے خود اس کا فیصلہ کرتے ہیں۔
ان کے اندر فطری کہانی بننے کی صلاحیت موجود ہے جسے بروئے کار لا کر اپنے تخلیقی تجربے کی آمیزش سے اپنے افسانوں میں پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنے ذوق تربیت سے قارئین کو فنی اقدار کی اہمیت کا احساس دلاتے نظر آتے ہیں۔ ان کے افسانے فنی و فکری سطح پر مستحکم ہوتے ہیں اور جدید فکشن کا وسیع مطالعہ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان کے افسانوں کی ایک خوبی یہ کہ وہ خود کو پڑھواتے ہیں اور یہی کسی بھی صاحب بصیرت افسانہ نگار کا بہترین اور بنیادی وصف ہوتا ہے۔ آئیے ان کے افسانوی مجموعے میں سے ایک بہترین افسانے ’فرار‘ کا کچھ حصہ آپ قارئین کی نذر کیے دیتے ہیں۔
تیز دھوپ میں ایک موٹی مکھی کے ہفت رنگ پر اور بدن قوس قزح بن کر چمکا۔ اسے اس کی بھنبھناہٹ ہیلی کاپٹر کی گونج لگی جو ان سب کو بچانے آرہا تھا۔ اچانک ہی جیسے کسی نے اس کی دائیں ران کے زخم میں چاقو گھونپ دیا۔ نیم غشی کی حالت میں اس نے ناخنوں سے زخموں کو کھرچ کر اپنے آپ کو زیادہ زخمی کر لیا۔ اس کے منہ سے کراہ نکلی۔ پھر بہت سی دھنکیں اس کے چاروں طرف پھیل کر اس کے ہر زخم میں خنجر اتارنے لگیں۔ وہ تڑپتے ہوئے ہاتھ پاؤں چلانے لگا۔ اس کا توازن بگڑا اور وہ دھپ کی بلند آواز کے ساتھ گرا تو دھوپ میں پانی کے بے شمار موٹے چھینٹے بہت زور سے اونچائی تک اچھلے لیکن ارباب زمین کے بظاہر صاف اور بے داغ دامن ان کی رسائی سے بہت دور تھے‘۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn