Qalamkar Website Header Image

سندھ کو سمندر برد ہونے سے بچاؤ

متعدد بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹوں کے مطابق آئندہ تیس چالیس سال کے دوران سندھ کے دو بڑے اضلاع بدین اور ٹھٹہ سمندر کا حصہ بن جائیں گے ۔ صدیوں سے بہنے والا دریائے سندھ ہمالیہ کے پہاڑوں سے نکلتا ہے اور ہزاروں میل کا سفر طے کر کے سمندر میں جا گرتا ہے ۔گزشتہ سو سال کے دوران سندھو دریا کو سب نے مل کر اتنی بیدردی سے لوٹا ہے یہ دریا کمزور ہو گیا ہے ۔پہلے جس رفتار سے سندھو دریا سمندر سے ٹکراتا تھا سمندر کو جرات نہیں ہوتی تھی وہ اسے آنکھیں دکھائے اور ایک انچ زمین پر بھی قبضہ کر سکے ۔سندھو دریا نے ماضی میں اپنی طاقت سے ہمیشہ سمندر کو شکست دی اور اس سے بہت سارا علاقہ چھین کر وہاں بستیاں بسائیں ۔

اب دریا کمزور ہو گیا ہے اس کا پانی کم ہونے سے اس کی طاقت بھی کم ہو گئی ہے ۔اب سمندر نے اسے آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں ۔سندھو دریا اب سندھ کی حفاظت کرنے سے قاصر ہو گیا ہے ۔سمندر نے آہستہ اہستہ سندھ دھرتی کو نگلنا شروع کر دیا ہے ۔ راستے کی آبادیوں نے اس دریا پر بہت سارے بند بنا لئے ہیں ۔ راستے والوں نے ڈیم بنا لئے ہیں اور مزید ڈیم بھی بنائے جا رہے ہیں ۔سندھو دریا فریاد کرتا ہے مجھے سمندرسے لڑنے دو ۔ مجھے سندھ کی دھرتی کو سمندر سے بچانا ہے لیکن کوئی اس کی فریاد نہیں سن رہا ۔آنے والے پچاس سال میں کراچی کو سمندر نگل لےگا۔ اس وقت سندھ کی سینکڑوں ایکڑ زمین روزانہ کی بنیاد پر سمندر چھین رہا ہے ۔ انڈس ڈیلٹا کے مکین نقل مکانی کر رہے ہیں۔ساحلی بیلٹ کے مکینوں کو پینے کا پانی میسر نہیں ہے ۔

یہ بھی پڑھئے:  کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

ٹھٹہ اور بدین کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ان کے ہاں کوئی مر جائے تو میت کو نہلانا مشکل ہو جاتا ہے ۔کوسوں دور سے پانی لانا پڑتا ہے ۔ کوٹری بیراج کے علاقہ میں دریائے سندھ کا پانی سبز ہوگیا ہےاور اس سے آگے چار سو کلومیٹر تک پانی نہیں ہے۔ سندھیوں کی زندگی دریا سندھ سے ہے۔ دریا اب پہلے کی طرح میرپورخاص ،عمرکوٹ،بدین،ٹھٹہ،تھر ،سانگهڑ اور دوسرے علاقوں کو میٹھا پانی دینے سے قاصر ہے ۔ سندھی پانی کیلئے رو رہے ہیں ۔احتجاج کر رہے ہیں ۔سندھیوں اور دریائے سندھ کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ۔

دریائے سندھ پر جہلم،چشمہ لنک کینال بنا کر سندھ کے پانی کو چرایا جا رہا ہے اور کم پانی سے سمندر تیزی سے زرخیز زمینیں نگل رہا ہے ۔ دریائے سندھ پر ڈاکہ زنی اور پانی کی قلت نے یہاں پر آباد سات کروڑ عوام کو معاشی مسائل کا شکار بنا دیا ہے ان کی زراعت تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی ہے۔ انٹرنیشنل واٹر لاء کے مطابق بھی دریائے سندھ کے پانی پر پہلا حق سندھیوں کا ہے ۔سندھ کو اس کا حق نہیں مل رہا ۔ ہم پنجاب کے سارے ترقی پسند دانشوروں اور لکھنے والوں ،صحافیوں ،اور ترقی پسند تنظیموں سے گزازش کرتے ہیں کہ اس انسانی مسئلے کو سیاسی مسئلہ بنائے بغیر ہمارے موقف کی نہ صرف تائید کریں، بلکہ احتجاج میں ہمارا ساتھ دیں۔

پاکستان اور چین کے درمیان 442 ملین ڈالرز کا بھاشا ڈیم کی تعمیر کا معاہدہ ہوا ہے۔ سندھی پوچھتے ہیں دریا میں تو پہلے ہی پانی نہیں رہا ۔گلیشیر پگھلنے کی جو رفتار ہے مستقبل میں پانی اس ڈیم کیلئے کہاں سے آئے گا ۔کیا ماہرین کو ٹھٹھہ اور بدین کی سمندر برد ہو جانے والی زمین نظر نہیں آ رہی ۔ کیا دنیا بھر کی ماہرین کی رپورٹوں پر کسی کی توجہ نہیں کہ گلیشر اب پہلے کی طرح برف سے ڈھکے ہوئے نہیں ہیں ۔کوئی بھاشا ڈیم پر سندھیوں کی فریاد نہیں سن رہا ۔کوٹری کے آگے دریا نہیں بلکہ ایک صحرا نمودار ہو چکا ہے۔سندھ کی جھیلیں (منچھر،کینجھر،ہلیلی) اب پانی سے بھری نہیں ہوتیں ۔ اب یہاں پرندوں نے آنا بھی کم کر دیا ہے ۔اب دریائے سندھ میں اندھی ڈولفن بھی نایاب ہو گئی ہے ۔ جن جھیلوں کو سندھو دریا پانی سے بھرا رکھتا تھا اب اکثر خشک رہتیں ہیں۔ کراچی میں تو پینے کا پانی بھی مشکل سے دستیاب  ہے۔حکومت اور اسٹبلشمنٹ وفاق کی روح کو بے اعتمادی کے رشتے میں بدلنے کی کوشش کر رہی ہیں۔کبھی اٹھارویں ترمیم پر حملہ اور کبھی این ایف سی ایوارڈ کی تشکیل پر غیر آئینی اقدمات اٹھا رہے ہیں۔چھوٹی قومیتوں کے مظلوم لوگ آخر کب تک دیوار سے لگانے کا عمل برداشت کریں گے ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس