Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

سندھ کی مظلوم ہندو برادری کا مقدمہ

سندھ میں ’’ہماری‘‘ محبوب پیپلزپارٹی 2008ء سے مسلسل اقتدار میں ہے اور بزم صوفیائے سندھ کے ایجنڈے کے مطابق ایک سید ، سید مراد علی شاہ اس حکومت کا آئینی سربراہ یعنی وزیراعلیٰ ہے۔ سید مراد علی شاہ سندھ کے ہی ایک مرحوم وزیراعلیٰ سید عبداللہ شاہ کے صاحبزادے ہیں۔ کینیڈین یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ مراد علی شاہ پہلے سندھ کے وزیر خزانہ بنے پھر وزیراعلیٰ۔ سندھ کی سیاست اور وزارت اعلیٰ کے لئے انہوں نے کینیڈین شہریت ترک کی۔ پڑھے لکھے خوش اخلاق اور ملنسار نوجوان ہیں۔ نوجوان اس لئے کہا ہے کہ ہم سے چھوٹے ہیں کوئی طنز نہیں کیا۔ وضاحت اس لئے ضروری تھی کہ پنجاب (وسطی پنجاب) کے 18 جیالوں میں سے 8 ہمارے ذاتی دوست ہیں ۔باقی کے 10میں سے کوئی بھوتر ہی نہ جائے بندے اور جیالے کا کوئی پتہ نہیں لگتا۔ بندہ بھوترے تو سیدھا اڈیالوی لشکر میں  جا وڑتا ہے۔ جیالہ بھوترے تو فوراً فتویٰ دیتا کہ ’’تم تو ہو ہی جمہوریت دشمن‘‘۔ویسے جیالے باقی (پنجاب میں) جتنے بھی ہیں رونق لگائے رکھتے ہیں ۔ان کی پارٹی اتحادی حکومت میں شامل ہے اور یہ سوشل میڈیا پر تلواریں نیاموں سے نکالے ٹہلتے رہتے ہیں۔ یاد رہے ہم دستیاب 18 پنجابی جیالوں میں پنجاب کے ’’لبیکی‘‘ گورنر سلیم حیدر اور چنیوٹی کارگری کے شاہکار سید حسن مرتضیٰ کوشامل نہیں سمجھتے۔ کیوں نہیں سمجھتے اس کی وجہ ہم لکھنے سے قاصر ہیں۔ سادہ لفظوں میں کہہ سمجھ لیجئے "میاں اخلاق بھی کوئی چیز ہوتی ہے‘‘۔معاف کیجئے گا یہ اٹھارہ پنجابی جیالوں کا ذکر یونہی درمیان میں آگیا بات سندھ سے شروع ہوئی تھی ویسے اٹھارہ میں سے اٹھارہ جیالے ہی فضائل سندھ بیان کرتے نہیں تھکتے ان میں دو تو ہمارے خالص عزیز ہیں اور ہم انہیں محبت سے ” ذاکر فضائل و مصائب گڑھی خدا بخش ” کہتے ہیں چونکہ عزیز ہیں اس لئے برا نہیں مناتے اس پر ان کا شکریہ بنتا ہے۔ ہاں تو پیارے قارئین سندھ میں پیپلزپارٹی گزشتہ 16 برسوں سے اقتدار میں ہے اس کا سندھ اور سندھیوں کو کیا فائدہ اور نقصان ہوا یہ ہمارا موضوع ہرگز نہیں ہمارا موضوع اور مسئلہ سندھ میں مقیم سندھ کی اصل مالک ہندو برادری ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  تمدنی مکالمہ یا سوفسطائی حیلے-آخری حصّہ-عامر حسینی

اب آپ یہ سوال نہ پوچھ لیجئے گا کہ ہم نے ہندو برادری کو سندھ کا اصل مالک کیوں لکھا۔ مقامی دھرم اور شناخت کے ساتھ تو وہی مالک ہیں۔ خیر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پچھلے 12 یا 13 سو برسوں میں ہجرت کرکے سندھ میں آباد ہونے والے سندھی نہیں یا مذہب تبدیل کرکے مسلمان ہوجانے والے مقامی سندھی نہیں رہے۔ ہاں اگر کوئی مذہب سے قومیت کشید کرکے اس پر فخر کرے یا کئی نسلوں سے سندھ میں رہ کر بھی خود کو سندھی کی بجائے کچھ اور کہتا سمجھتا ہو تو اس کا ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ سندھ کی ہندو برادری آج نہیں کئی دہائیوں سے مظلوم ترین برادری ہے۔ یہ برادری تبدیلی مذہب کی زبردستی کی دعوت کا نشانہ تو بنتی آرہی ہے لیکن اس سے بڑا اور گھناؤنا ظلم یہ ہے کہ سندھ کے چند بڑے پیروں ،میروں اور ملاؤں کی سرپرستی میں ان کی بچیوں کو اغوا کر کے جبری مذہب تبدیل کرانے اور پھر اپنے عقیدت مندوں سے شادی کروانے کا کاروبار ایک طویل عرصہ سے جاری ہے۔

اس کاروبار میں دو بڑے پیر خانوادے معروف ہیں ۔ ایک بھرچونڈی شریف والے اور دوسرے امر کوٹ کے سرہندی پیر۔ ان دو پیر خاندانوں کے علاوہ بھی ہندو بچیوں کے اغوا ،جبری مذہب تبدیلی اور مسلمانوں سے شادی کے کاروبار میں درجنوں مولوی، ان کے مدارس اور ایجنٹ شامل ہیں ۔ظلم یہ ہے کہ کبھی کسی ہندو خاندان کو اپنی اغوا کی گئی بچی کے حوالے سے انصاف نہیں ملا۔ کیوں نہیں ملتا اس کی دیگر وجوہات کے ساتھ مذہب فروشوں کا منظم نیٹ ورک ہے جس میں مختلف طبقوں اور محکموں کے بااثر لوگ بھی شامل ہیں۔

ہمارے ذرائع ابلاغ کے مقامی نمائندوں میں سے بہت کم مظلوم ہندو برادری کا ساتھ دیتے ہیں۔ حال ہی میں ہندو برادری کی تین بچیوں اور ا یک دس گیارہ برس کے بچے کے اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کا افسوسناک واقعہ سامنے آیا ۔اس معاملے میں بھی مقامی عدالت نے حسب سابق اغوا کی گئی بچیوں کو شیلٹر ہومز میں رکھنے کا حکم دیا کیونکہ عدالت کا خیال تھا (ہمیشہ یہی ہوتا ہے) کہ اگر بچیوں کو والدین کے سپرد کیا گیا تو والدین ان پر دباؤڈال کر دوبارہ ہندو بنالیں گے۔ سوال یہ ہے کہ عدالت نے یہ کیوں نہیں دیکھا کہ اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کا نشانہ بننے والی بچیاں نابالغ ہیں۔ کیوں ہمیشہ کی طرح عائلی قوانین میں موجود بالغ ہونے کی عمر کی بجائے ملا کے ڈھکوسلے کو حرف آخر سمجھا گیا؟

یہ بھی پڑھئے:  لمحۂ فکریہ

افسوس اس بات کا ہے کہ سندھ میں سولہ برسوں سے پیپلزپارٹی حکومت میں ہے۔ جیالے پوچھیں اپنی ’’روشن خیال‘‘ جماعت کی قیادت اورسندھ حکومت سے کہ گزشتہ 16 برسوں کے دوران کتنے ہندو خاندان اپنی بچیوں کے اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کے اس منظم کاروبار سے گھبراکر سندھ چھوڑ کر بھارت یا دوسرے ملکوں میں جابسے؟ بھارت کے علاوہ دوسرے ممالک میں جابسنے والے ہندو خاندان انگلیوں پر شمار ہوسکتے ہیں مگر بھارت جابسنے والے خاندانوں کی تعداد سینکڑوں ہے۔ ساعت بھر کے لئے رکئے 2012ء میں بھی ہندو بچیوں کے اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کی لہر اٹھی تھی۔ ان دنوں بتایا گیا تھا کہ بچیوں کے اغوا اور جبری مذہب تبدیلی پر انصاف نہ ملنے کی وجہ سے لگ بھگ 15 ہزار ہندو خاندان سندھ چھوڑ کر بھارت چلے گئے ہیں۔ اس وقت پیروں، میروں اور مولویوں کے ساتھ سندھ حکومت کے بڑے بھی اس تعداد کو پروپیگنڈہ قرار دیتے دیکھائی دیئے۔ یعنی اس سے کسی نے انکار نہیں کیا تھا کہ بچیوں کے اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کے خوف سے سندھ کے ہندو برادری کے خاندان سندھ چھوڑ کر جارہے ہیں۔ صرف تعداد پر کہا گیا کہ یہ درست نہیں۔

اب آیئے موجودہ واقعہ کی طرف اس میں گیارہ برس کے ہندو برادری کے لڑکے کا ویڈیو بیان موجود ہے کہ اس سے اسلحہ کے زور پر کلمہ پڑھایا گیا۔ ا غوا کی جانے والی تین نابالغ ہندو بچیوں کا معاملہ بھی یہی ہے (ان میں سے ایک بچی پولیس وین میں بیٹھی رورو کر باپ سے کہہ رہی ہے ” بابا مجھے گھر لے جاو” )۔ تقریباً ناخواندہ نابالغ بچیوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ان تقریباً ناخواندہ نابالغ بچیوں کے دل میں راتوں رات اسلام کی ’’شمع‘‘ روشن ہوگئی۔ یہ شمع اسلام ہندو لڑکوں کے دلوں میں راتوں رات روشن کیوں نہیں ہوتی یا جبری مذہب تبدیلی کے کاروبار میں معروف پیر، میر اور مولوی ہندو لڑکوں کو مسلمان کرکے انہیں اپنے خاندانوں یا مریدوں کے خاندانوں کا حصہ کیوں نہیں بناتے؟ افسوس یہ ہے کہ یہ مذموم کاروبار سیکولر لبرل کہلانے والی پیپلزپارٹی کی مکمل عملداری والے صوبے میں ہورہا ہے۔ اب کوئی یہ نہ کہے کہ اس میں پی پی پی اور سندھ حکومت کا کیا قصور ہے؟

یہ بھی پڑھئے:  اگلے سات (7) سالوں بعد پانی کی بوند بوند کو ترسنے والی بےحس پاکستانی قوم کے نام

سادہ سا سوال ہے پیپلزپارٹی سندھ میں مسلسل 16برس سے اقتدار میں ہے ان 16 برسوں میں ہندو برادری کی اغوا ہونے والی بچیوں کا جبری طور پر مذہب تبدیل کرواکے ان کی شادی کروائے جانے کے واقعات کے بعد سندھ حکوت اور پیپلزپارٹی کتنے مظلوم خاندانوں کے ساتھ کھڑی ہوئی؟  یہاں میں دوٹوک انداز میں لکھ دوں کہ ہندو برادری یہ الزام لگاتی آرہی ہے کہ ان کی نابالغ بچیوں کے اغوا جبری مذہب تبدیلی اور شادیاں یہ سب ایک منظم کاروبار ہے۔ باردیگر عرض کردوں اس کاروبار میں بھرچونڈی شریف کے پیروں، امرکوٹ کے سرہندی پیر اور درجنوں مولوی صاحبان ملوث ہیں۔ سندھ حکومت نے آج تک ان کے خلاف کیا کارروائی کی؟ اور اگر کارروائی نہیں کی تو کیوں کیا وہ اس کاروبار کو عین اسلام سمجھتی ہے؟ امید ہے کہ سندھ حکومت اور پی پی پی ان سوالوں کا تسلی بخش جواب دیں گے۔

Views All Time
Views All Time
63
Views Today
Views Today
7

حالیہ بلاگ پوسٹس