Qalamkar Website Header Image

نمائندگی کا حق دار کون؟

ملکی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو بھی الیکشن آیا اس میں خاندانی اثرو رسوخ ، گروپ ، دھڑوں اور موروثی سیاست کو پروان چڑھایا گیا۔ سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور کارخانہ داروں کی نالائق گونگی بہری اولادوں کو منتخب کروا کر ایوانوں تک پہنچایا گیا۔ تاکہ ان خاندانوں کا بھرم قائم رہے۔ اور اسمبلی رکنیت کا لیبل لگا رہے۔یہ اراکین اسمبلی نہ تو عوامی مسائل سے آشنا ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کو ایوانوں کی کاروائی و قانون سازی کے حروف تہجی سے دلچسپی ہوتی ہے ان کا کام تو بس سیاست سیاست کھیلنا ہوتاہے کیونکہ ملکی سطح پر اپنے خاندان کا اثرو رسوخ قائم کرنے اور اقتدار کی آڑ میں اپنے کاروباروں کو طول دینے کے لیے ان کی مجبوری ہے کہ یہ ایوانوں تک پہنچیں چاہے ان کو کتنی پارٹیاں تبدیل کرنی پڑیں ۔ ایسے لوگوں کی کوئی ایک مخصوص جماعت نہیں ہوتی یہ چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں اور ان کے ممی ڈیڈی جانشین اسمبلی تو کجا کسی عوامی جگہ پر اکیلے جانے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے ۔ نہ ہی ان میں اتنا شعور ہوتا ہے کہ عوامی مشکلات کا جائزہ لے کر اس کے تدارک کا کوئی ساماں پیدا کیاجا سکے۔

مگر بدقسمتی سے گزشتہ 70 سالوں سے منتخب ہونے والے ایوانوں میں ایسے افراد کی فراوانی رہی ہے ۔ انتخابی حلقوں سے ان کے حاشیہ نشین اور مالشی قسم کے فرمانبردار سپورٹرز جن کے اپنے مفادات ان لوگوں سے وابستہ ہوتے ہیں سادہ لوح عوام کو سبز باغ دکھا کر اور نت نئے جھانسے دے کر ان کے ووٹ کے حصول کا سبب بنتے ہیں۔ مگر اب کی بار عوام باشعورہو چکے ہیں۔ اور جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور موروثی سیاستدانوں کی قلابازیوں سے واقف ہو چکے ہیں۔ عوام جانتے ہیں ان بنارسی ٹھگوں نے ووٹ کی پرچی کے حصول کے بعد موسمی بٹیروں کی طرح اڑان بھر جانی ہے جیسا کہ وہ ماضی میں کرتے آئے ہیں ۔ عوام نے ان کی گزشتہ کئی سالوں کی کارکردگی کو بھی جانچ لیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  جناب وزیراعظم! لوگ پوچھ رہے ہیں

جس کی بنیاد پر اس بار وہ ووٹ کے حقدار نہیں۔ اور نہ ہی ان کو نمائندگی سونپی جا سکتی ہے۔ عوام بخوبی آگاہ ہیں کہ نمائندگی کے اصل حقدار صرف صرف وہی امیدوارہیں جو ان کے دکھ درد میں شریک رہے ، بیورو کریسی ، پولیس گردی کے خلاف مظلوم کے لیے ڈھال کا کردار اداکرتے ہوئے معاشرتی ناہمواریوں ، چیرہ دستیوں کے خلاف مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہو کر زنجیر عدل ہلاتے رہے عوام کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔

اپنے ڈیروں کے دروازوں کو سائلوں کے لیے ہر وقت کھلا رکھا ان کے شانہ بشانہ نا انصافیوں و جبرل و استدلال کے خلاف سینہ سپر رہے ۔ پی پی ون سے تعلق رکھنے والے آزاد امیدوار ملک حمید اکبر کا شمار بھی ملکی انتخابات میں حصہ لینے والے چند ایسے امیدواروں میں ہوتا ہے جنہوں نے کوئی نشست یا اختیارات نہ ہونے کے باوجود عوام کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ۔ محدود مالی وسائل کے باوجود گزشتہ کئی سالوں سے عوام کے شانہ بشانہ دامے درمے سخنے ظلم و جبر زیادتیوں اور نا انصافیوں کے خلاف لڑتے رہے ۔ چوکوں چوراہوں سے لے کر عدالتوں تک عوام کے ساتھ کھڑے رہے ۔ ظالموں کو للکارتے رہے ۔ مظلوموں کی داد رسی کا سامان پیدا کرنے کے لیے کرپشن ، غنڈہ گردی، لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری کے خلاف آواز اٹھاتے رہے کسی مصلحت کو پاؤں کی زنجیر نہ بننے دیا۔ ایسے نمائندے ہی حقیقی طور پر عوامی نمائندگی کے حقدار ہیں جو ایوانوں میں پہنچ کر عوام کے ووٹ کا حق ادا کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  پھر مایوسی کیوں ؟

یہ الیکشن سرمایہ دارانہ ، جاگیردارانہ اور موروثی سیاست کو مسترد کر کے عوام کے درد رکھنے والے حقیقی نمائندوں کو منتخب کرنے کا الیکشن ثابت ہو گا۔ عوام کے خیر خواہ امیدواروں کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو چاہے وہ آزاد امیدوار کے طور پر ہی انتخابات میں حصہ لے رہے ہوں ان کو منتخب کر کے ایوانوں تک پہنچائیں تاکہ وہ بہتر طور پر عوامی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے مسائل کی نشاندہی کریں ۔ ظلم و زیادتیوں اور نا انصافیوں کے خلاف ان کی آواز ایوان میں گونجے ۔ ہر حلقہ سے ملک حمید اکبر خان جیسا امیدوار تلاش کریں۔ جس کا ماضی عوامی خدمت کا گواہ ہو جس میں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی صلاحیت اور جذبہ ہو۔ جو ایوان میں پہنچ کر عوامی دکھوں کا مدوا کر سکے ان انتخابات میں فرسودہ سیاست اور مفاداتی ٹولوں کو یکسر مسترد کردیں جنہو ں نے کئی عشروں سے عوام کو کٹھ پتلی بنا رکھا ہے اور مداری کی ڈگڈی بجا کر ووٹ کی پرچی تو حاصل کر لیتے ہیں مگر اگلے انتخابات تک کہیں نظر نہیں آتے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس