جن لوگوں نے باڈی بلڈنگ کے شوق میں ناریل کے تیل کے انجکشن لگا کر مسلز بنا لیے انہوں نے تو جلد بازی کی تاریخ میں گویا نئی مثال رقم کر دی۔ پڑھائی لکھائی سے ویسے ہی جان جاتی ہے۔ اب کون اتنی ساری کتابیں پڑھے۔ ریسرچ کرے اور سر کھپائے۔ یا تو امتحان میں نقل کر لو یا پیسے کے بل پر پاس ہو جاؤ بلکہ جعلی ڈگری ہی خرید لو اور سارے سیاپے سے بچ جاؤ۔
کئی دفعہ ریسرچ کرنے اور لکھنے کے معاملے میں بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے طالب علم حتٰی کے بڑے بڑے رائیٹرز بھی فلموں کے چربہ، کتابوں اور انٹرنیٹ سے نقل اور کاپی پیسٹ کا طریقہ اپنا لیتے ہیں۔ اگر گھر کے افراد کی صحت گر رہی ہے تو اُن کی صحت کی پرواہ کیے بغیر سینے میں جلن اور تیزابیت کی مسلسل شکایت کے باوجود گھروں میں بازاری ڈبوں کے مصالے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کون کھانوں کی ترکیب اور مصالوں کو سمجھے,
آج کل کے مادی دور میں رشتے ناطے بھی مادی فائدہ دیکھ کر بنائے جاتے ہیں حتی کے جیون ساتھی کا انتخاب جس پر آنے والی نسلوں کا انحصار ہوتا ہے اس اہم فیصلے میں بھی سماجی اور معاشی حیثیت کو ترجیح دی جاتی ہے اور اسے (financial status) بہتر بنانےا آسان ذریعہ سمجھا جاتا ہے. مالی حالات بدلنے کے لیے کون محنت مشقت کرنے کے چکر میں پڑے۔ اس کی بجائے کسی صاحب حیثیت گھرانے میں تمام تر خامیاں نظر انداز کر کے محض امارت سے مرعوب ہو کر رشتہ کر لیا جاتا ہے۔ یا پھر کسی غیر ملکی سے شادی کر کے وہاں کا ویزا حاصل کیا جاتا ہے۔ ہر طرح کی ہیرا پھیری چور بازاری اور دو نمبری کر لیں گے بس محنت کرنے سے بچ جائیں کسی طرح۔ ایسا کیوں ہے کے ہمارے لوگ ہر بات میں شاٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہر کام کرنے کا ایک باضابطہ اور باقاعدہ طریقہ ہوتا ہے جسے سرے سے نظر انداز کر کے جلد از جلد نتائج حاصل کرنے کی خواہش کی جاتی ہے۔ جو لوگ باقاعدہ طور پر باڈی بلڈنگ کرتے ہیں۔
اگر مکمل غذائیت میسر نہ آئے تو صحت پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ توانائی کے لیول میں کمی آۓ گی۔ جلد اور بالوں کی خوب صورتی اور چمک مانند پڑ جائے گی۔ کہتے ہیں کہ ایک صحت مند دماغ ایک صحت مند جسم میں ہی موجود ہوتا ہے۔ صحت و تندرستی برقرار رکھنے اور وزن کو کنٹرول کرنے کے لیے ورزش چہل قدمی اور مناسب سرگرمی بہت ضروری ہے۔ حفظان صحت کے اصولوں کو ترک کر کے اگر ہم ادوایات کا سہارا لے کر وزن کم کرنے کی کوشش کریں گے تو غیر فطری طریقے کو اپنانے کے باعث آپ کو صحت کے حوالے سے ناقابلِ تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
شارٹ کٹ ڈھونڈھنے اور محنت سے بھاگنے کے چکر میں ہم لوگ مستقبل میں ہونے والے بڑے نقصانات کو دیکھ نہیں پاتے۔ بحیثیت قوم بھی ہماری نفسیات بن چکی ہے کے ہم محنت طلب اور صبر آزما کاموں سے اکتاہٹ اور کوفت محسوس کرتے ہیں۔ کسی کام کی باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے اسے باضابطہ طریقے سے کرنا ہمیں وقت کا ضیاع معلوم ہوتا ہے۔ ہم شارٹ کٹ کا طریقہ اپنا کر سیدھے راستے پر چلنے والوں اور دور اندیش لوگوں کو بےوقوف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بات ہماری تربیت کا حصہ ہونی چاہئیے کہ شارٹ کٹ جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ محنت اور کوشش کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے۔ جب ہم کسی چیز کے حصول کے لیے محنت کر رہے ہوتے ہیں تو اُس وقت ہم شعوری و غیر شعوری طور پر اپنے آپ کو اُس چیز کو سنبھالنے اور اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کا اہل بھی بنا رہے ہوتے ہیں۔ جن مقاصد کے حصول میں زیادہ وقت اور محنت درکار ہوتی ہے وہاں ہم محنت و برداشت سے خود کو اس کامیابی کے قابل بنا رہے ہوتے ہیں۔ کوئی کامیابی راتوں رات نہیں ملتی نہ ہی محنت کے بغیر حاصل ہوئی، کامیابی دیر پا ہی ہو سکتی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn