امرتا پریتم (مترجم ۔شمشیر سنگھ خنجرؔ)
انتخاب/ٹائیپنگ۔ غزل قاضی ۔ ویانا ، آسٹریا
وہ کہانیاں لکھا کرتا تھا ۔ چھوٹی چھوٹی مختصر کہانیاں ۔ مختصر افسانے ۔ نہ معلوم اُس نے کتنے افسانے لکھے اور اُن میں کیا کیا لکھا ۔ لیکن اُس نے ایک کہانی لکھی ۔ نہایت مُختصر ـــــــــــــــــ اتنی مختصر کہ گھڑی کی بڑی سوئی جب تین پر تھی تو ابھی اُس نے لکھنا شروع بھی نہیں کیا تھا ۔ اور جب وہی سوئی چار پر پہنچی تو وہ کہانی مکمل ہو چکی تھی ـــــــــ ــــــــــــ اُس نے تو اتنی چھوٹی اور مختصر کہانی لکھی لیکن ” ریشما ” کو نہ معلوم کیا ہوا ۔ وہ یہ محسوس کر رہی تھی ، اگر اپنی تمام عمر وہ اُس کہانی کا مطالعہ کرتی رہے تو بھی شاید ختم ہونے میں نہیں آئے گی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہانی ــــــ چھوٹی کہانی ۔
ریشما کو یوں محسوس ہوا جیسے اُس کی زندگی ایک خالی ورق تھا جس پر اُس مختصر فسانہ نگار نے ایک ایسا افسانہ لکھا جس کے ایک ایک لفظ کو وہ کئی کئی مرتبہ پڑھ چُکی تھی ۔ پھر بھی وہ فسانہ ختم نہ ہوتا تھا ـــــــ وہ مختصر افسانہ ۔
وہ کہانی لکھی بھی تو اُن ہی معدودے چند الفاظ میں گئی تھی ۔ جن میں اُس س پہلے سینکڑوں کہانیاں لکھی جا چکی تھیں ـــــــــــ البتہ کاغذ کا فرق ضرور تھا ــــــــــــــــ دوسری کہانیاں شاید فُل سکیپ سائز کے ہلکے سے کاغذ پر سُپردِ قلم کی گئی تھیں ۔ اور اعلیٰ درجے کے آرٹ پیپر پر چھپی تھیں ــــــ لیکن وہ کہانی ریشما کے صفحہء زندگی پر لکھی گئی تھی ۔ اُس کے پان کے پتّے ایسے دل پر نقش ہو گئی ۔ جو اس نے گھڑی کی بڑی سوئی جب تین پر تھی یوں لکھنا شروع کی تھی :-
” بس جا رہی ہیں آپ ؟”
” جی ہاں ۔”
” مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے ”
” کیا کہنا ہے ؟ کہئے ۔” ریشما کرسی پر پھر بیٹھ گئی ــــــــــ لیکن اس سے آگے وہ کچھ نہ بولا اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی سرخ پینسل سے سامنے رکھے بلاٹنگ پیڈ پر چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچنے لگا ۔ ریشما اتنی دیر اُس کی طرف دیکھتی رہی ۔
” لیکن اگر میرا کہا آپ کو بُرا لگے تو آپ ناراض تو نہ ہو جاؤ گی ؟”
” لیکن آپ کا کہا برا ہو گا ہی کیوں ؟”
” ہو سکتا ہے !”
” نہیں ۔”
رفاقت تو اسی طرح قائم رکھیں گی ؟”
” ضرور ۔”
وہ پھر بلاٹنگ پیڈ پر سُرخ پینسل سے چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچنے لگا ۔
” بتائیے نا ں” ریشما نے خود ہی پوچھا ۔
اُس نے پیڈ سے سر اٹھا کر ریشما کی طرف دیکھا ۔ لیکن منہ سے کچھ نہ کہا ۔
” پھر نہیں بتائیں گے؟ ” ریشما نے دوبارہ دریافت کیا ۔
” بتاؤں گا ـــــــــ لیکن بتانے سے پہلے ایک سوال کا جواب چاہتا ہوں ۔”
” کیا؟”
” نہایت چھوٹا سا سوال ہے ۔”
” لیکن ہے کیا ؟”
اب تیسری مرتبہ وہ پھر بلاٹنگ پیڈ پر جُھک گیا ، اور اُسی لال پینسل سے چھوٹے چھوٹے خط بنانے لگا ــــــــــ اب ریشما خاموش تھی ۔
” آپ محبت کو گناہ سمجھتی ہیں ؟” اس نے پیڈ سے یک لخت سر اٹھا کر پُوچھا
” محبت بذاتِ خود کوئی گناہ نہیں ۔” ریشما نے ذرا رُک کر جواب دیا ۔
” بذاتِ خود سے کیا مراد ہے ؟”
” کوئی غرض یا آرزو جب محبت میں شامل ہو جائے تو وہ گناہ بن جاتی ہے ۔”
” نہیں نہیں بالکل بےلوث ، صادق اور بےغرض محبت ۔”
: تو پھر گناہ نہیں ۔”
” اگر آپ اسے گناہ نہیں سمجھتیں تو میں گُناہ نہیں کر رہا ۔”
گھڑی کی سوئی تین سے چل کر بمشکل چار پر پہنچی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب ، چھبیس سال بعد ، امرتا پریتم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بشکریہ: محترم وحید قمر، عالمی افسانہ فورم
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn